سورت السجدہ ترتیب نمبر32 نزول نمبر 75
مکی سورت: سورہ سجدہ مکی ہے۔ اس میں 30 آیات اور 3 رکوع ہیں۔
وجہ تسمیہ:
آیت نمبر ۱۵ میں ایمان والوں کی تعریف ہے کہ جب انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدہ میں گر پڑتے ہیں۔ اس خصوصیت کی وجہ سے اس سورت کا نام ہی سورہ سجدہ پڑ گیا۔
اہم مضامین درج ذیل ہیں۔
1۔ قرآن کی حقانیت :
سورت کی ابتداء میں قرآن کی حقانیت کا بیان ہے:
۱۔ جس کا اعجاز واضح ہے۔
۲۔ اس کی صداقت کے دلائل روشن ہیں۔
۳۔ اس کا انداز بیان انسانی کلام سے بالکل الگ ہے۔
لیکن اس کے باوجود کفار مکہ حضور اکرم ﷺ پر تہمت لگاتے تھے کہ آپ (ﷺ) نے یہ کلام خود گھڑ لیا ہے۔
2۔ قدرت کے دلائل:
یہ سورت اللہ کی وحدانیت اور اس کی قدرت کے دلائل بیان کرتی ہے۔
۱۔ یعنی آسمان اور زمین کو اس نے پیدا کیا۔
۲۔ ہر کام کی تدبیر وہی کرتا ہے۔
۳۔ پانی کے ایک حقیر قطرے سے انسان کو اس نے تخلیق کیا۔
انسانی تخلیق کے مراحل:
شاید انسان اپنی تخلیق کے مراحل کے بارے میں غور وفکر ہی نہیں کرتا۔
۱۔ اس نے کیسے مٹی سے پانی،
۲۔ نطفہ سے لوتھڑا،
۳۔ لوتھڑا سے بوٹی ،
۴۔ اور بوٹی سے ہڈی تک کے مراحل طے کیے۔
۵۔ پھر کیسے انتہائی پرکشش صورت اور مناسب قد وقامت والا انسان بن گیا۔
3۔ مجرموں کا حال:
یہ سورت مجرموں اور مومنوں دونوں کا حال بتلاتی ہے۔
۱۔ کہ مجرم قیامت کے دن سر جھکائے کھڑے ہوں گے۔
۲۔ ان پر ذلت چھائی ہوئی ہوگی ۔
۳۔ وہ آرزو کریں گے کہ کاش!
ہمیں دنیا میں لوٹا دیا جاۓ تو ہم نیک اعمال کر یں۔
مومنین کا حال:
دوسری طرف مومنین کے بارے میں بتلایا گیا:
۱۔ کہ وہ دنیا میں اللہ کے سامنے جھکے رہتے ہیں۔
۲۔ راتوں کو ان کے پہلو بستر سے جدا رہتے ہیں۔
۳۔ وہ اللہ کے عذاب سے ڈرتے بھی ہیں۔
۴۔ اور اس کی رحمت کی امید بھی رکھتے ہیں۔
۵۔ علاوہ ازیں اللہ کے دیے ہوئے اموال کو اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ان کے بارے میں فرمایا گیا۔
“کوئی متنفس نہیں جانتا کہ ان کے لیے (آخرت میں ) آنکھوں کی کیسی ٹھنڈک چھپا کر رکھی گئی ہے۔ یہ ان اعمال کا صلہ ہے۔ جو وہ کرتے تھے۔”
۶۔ انہوں نے ریا اور دکھاوے کے بغیر چھپ چھپ کر اعمال کیے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ایسی نعمتیں چھپا رکھی ہیں۔ جو کسی کے حاشیہ خیال میں بھی کبھی نہیں آئیں۔
ویسے بھی جنت کی نعمتوں کی صحیح حقیقت کسی کی سمجھ میں آ ہی نہیں سکتی۔ دنیا کی نعمتیں آخرت کی نعمتوں کے ساتھ صرف لفظوں میں مشترک ہیں۔ حقیقت کے اعتبار سے ان کے درمیان زمین و آسمان سے بھی کہیں زیادہ فرق ہے۔
حضرت محمدﷺ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رسالت میں مشابہت :
سورت کے اختتام پر حضرت موسٰی علیہ السلام کو تورات دیے جانے کا ذکر ہے جو کہ اس بات پر تنبیہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رسالت میں مشابہت پائی جاتی ہے۔