سورۃ العنکبوت ترتیبی 29 نمبرنزولی نمبر 85
khulasa e quran pdf free download
سورۂ عنکبوت مکی سورت ہے۔ اس میں 69 آیات اور 7رکوع ہیں۔
جہ تسمیہ:
آیت نمبر 41 میں مکڑی کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کی نسبت سے اس سورت کو سورۂ عنکبوت کہا جاتا ہے۔
اس سورت کا موضوع ” سنت ابتلاء” ہے۔
سنت ابتلاء:
یعنی اس زندگی میں ابتلائیں اور آزمائشیں ضرور آتی ہیں۔ کی زندگی میں مسلمانوں کو طرح طرح کے مظالم اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ جب جور و جفا کے بادل پیہم برس کر بھی نہ تھمتے تو بتقصاۓ بشریت بعض لوگ گھبرا اٹھتے تھے۔
انہیں سمجھانے کے لیے فرمایا گیا کہ ایمان والوں کو آزمانا اللہ تعالی کی پرانی سنت اور دستور ہے۔ تا کہ سچے اور جھوٹے مومن اور منافق میں امتیاز ہو جاۓ ۔ صاحب ایمان بڑے بڑے حوادث کے سامنے استقامت دکھاتا ہے۔ جبکہ زبانی کلامی ایمان کے دعوے کرنے والوں کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں اور ان میں سے بعض دینوی تکلیفوں سے بچنے کے لیے مرتد ہو جاتے ہیں۔ارشاد ہوتا ہے:
“اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لاۓ جب انہیں اللہ کی راہ میں کوئی ایذا پہنچتی ہے تو لوگوں کی ایذا کو یوں سمجھتے ہیں ۔ جیسے اللہ کا عذاب۔
اور اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے مدد پہنچے تو کہتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھ تھے ۔ کیا اللہ نہیں جانتا جو کچھ اہل عالم کے سینوں میں ہے۔”
انجام کار اہل حق غالب:
ایمان والوں میں سے سب سے زیادہ اور سخت آزمائشیں اللہ کے نبیوں پر آئیں۔اس لیے اس سورت میں حضرت نوح حضرت ابراہیم حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہم السلام کے قصے اجمالی طور پر ذکر کیے گئے ہیں۔ تا کہ ایمان والے جان لیں کہ اہل حق پر ابتلائیں تو آتی ہیں۔ لیکن یہ ابتلائیں دائمی نہیں ہوتیں۔ انجام کار اہل حق کو غلبہ نصیب ہوتا ہے اور ان کے مخالفین کو ہلاک کر دیا جا تا ہے۔
سورۃ الفرقان کا اردو میں مختصر ، مکمل خلاصہ Surat Al-Furqan | Quran ka khulasa in urdu
surah Mediaidah meaning in urdu_سورۃ المائدۃ ۔ مع اردو ترجمہ _سورۃ المائدہ کی تفسیر_
سورت کے اختتام پر مشرکین کے بتوں کو عنکبوت ( مکڑی) کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔
جیسا کہ اس کا جالا از حد کمزور ہوتا ہے۔ نہ سردی سے بچا سکتا ہے۔ نہ گرمی سے اور نہ ہی تیز ہواؤں کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ یونہی مشرکوں کے بت کمزور ہیں نہ انہیں نقصان سے بچا سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔
پارہ نمبر 21
اہم مضامین
1۔ تلاوت اور نماز کی پابندی کا حکم :
اکیسویں پارہ کی پہلی آیت جو کہ حقیقت میں عنکبوت کی آیت ۴۵ ہے۔ اس میں کتاب اللہ کی تلاوت اور نماز کی پابندی کا حکم دیا گیا ہے۔
نماز کا فائدہ یہ بتایا گیا ہے کہ یہ بے حیائی اور بری باتوں سے روکتی ہے۔
شرائط و آداب کا لحاظ :
حقیقت وہی ہے جو حکیم وخبیر ذات نے بیان فرمائی ہے۔ جب شرائط و آداب کا لحاظ رکھتے ہوئے نماز ادا کی جاتی ہے تو اس کے ثمرات و نتائج ضرور حاصل ہوتے ہیں پھر وہ نمازی اور معاصی کے درمیان رکاوٹ بن جاتی ہے۔
نماز میں تین صفات:
امام ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نماز میں تین صفات پائی جاتی ہیں۔ ۱۔ اخلاص ۲۔ خشیت ۳۔ اور ذکر اللہ۔
اخلاص:
اخلاص نمازی کو نیکی پر آمادہ کرتا ہے۔
خشیت:
خشیت اسے برائیوں سے روکتی ہے۔
ذکراللہ
اور ذکر اللہ جو کہ قرآن ہے ۔ وہ اسے نیکی کا حکم بھی دیتا ہے اور منکرات سےروکتا بھی ہے۔
حقیقت میں نماز ہی نہیں:
جس نماز کے اندر ان تینوں میں سے کوئی صفت ہی نہ پائی جائے ۔ وہ حقیقت میں نماز ہی نہیں۔
اپنی نمازوں کا جائزہ:
کوئی حرج نہیں اگر ہم کچھ دیر کے لیے رک کر اپنی نمازوں کا جائزہ لے لیں ۔ اس جائزہ سے ہمارے لیے یہ سمجھنا آسان ہو جائے گا کہ ہماری نماز میں بے جان کیوں ہیں اور مسجد میں نمازیوں سے بھری ہونے کے باوجود گھروں اور بازاروں میں گناہوں کا سیلاب کیوں ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔
نماز مسجد تک محدود:
کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم میں بے شمار لوگ ایسے ہیں جو نماز بھی پڑھتے ہیں۔ جھوٹ بھی بولتے ہیں ۔ وعدہ خلافی بھی کرتے ہیں، ظلم اور لوٹ کھسوٹ کا بازار بھی گرم رکھتے ہیں۔ بے پردگی بدنظری اور فحاشی میں بھی ملوث ہیں۔ ان کی گھر بازار اور دکان کی زندگی دیکھ کر پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ نمازی ہیں۔ اصل میں وہ نماز اور اس کے اثرات کو مسجد تک محد ودر کھتے ہیں ۔
اپنی زندگی کو نماز سے الگ تھلگ :
اور اپنی انفرادی معاشرتی ، اجتماعی’ تجارتی سیاسی اور اخلاقی زندگی کو نماز سے
بالکل الگ تھلگ رکھتے ہیں۔
2۔ حضور ﷺ کی صداقت کی علامات:
حضور اکرم ﷺ کی صداقت کی علامات میں سے ایک واضح علامت یہ ذکر کی گئی ہے کہ آپ (ﷺ ) امی ہیں۔ نہ پڑھنا جانتے ہیں اور نہ لکھنا جانتے ہیں۔ اگر لکھنا پڑھنا جانتے ہوتے تو باطل پرست شک کرتے کہ شاید آپ (ﷺ) نے پہلی کتابوں سے یہ علوم حاصل کر لیے ہیں۔
صداقت کی اس واضح اور زندہ دلیل کے باوجودمنکرین اعتراض کرتے تھے کہ ہم جن معجزات کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ وہ آپ ( ﷺ) کے ہاتھوں کیوں نہیں ظاہر ہوتے۔
اللہ کا جواب:
اللہ جل شانہ فرماتے ہیں کہ:
کیا قرآن کا معجزہ ان کے لیے کافی نہیں ہے؟ جس کی نظیر پیش کرنے سے ان کے فصحاء اور بلغاء عاجز آ گئے ہیں۔
ان کی جہالت کا حال:
قرآن تو معجزوں کا معجزہ ہے۔ اس کی موجودگی میں کسی دوسرے معجزہ کا مطالبہ عناد اور جہالت کے سوا کچھ نہیں۔ ان کی جہالت کا تو یہ حال ہے کہ بسا اوقات وہ خودعذاب کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں۔
قرآن کے سائنسی انکشافات:
قرآن کل کا بھی معجزہ تھا۔ آج بھی معجزہ ہے۔ لیکن قرآن نے جو علمی اور سائنسی انکشافات کیے تھے۔ عرب کے بدو اور عجم کے دانشور ان کے سمجھنے سے قاصر تھے۔ مگرآج کا انسان انہیں آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔
قرآن کی اعجازی شان :
اس لیے ناچیز کی رائے یہ ہے کہ انسانی معلومات اورتحقیقات میں جوں جوں اضافہ ہوتا جائے گا۔ قرآن کریم کی اعجازی شان اتنی ہی نمایاں ہوتی جاۓ گی۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ قرآن کا معجزہ ہونا کل کے مقابلے میں آج زیادہ واضح ہے اور آسانی سے سمجھ میں آ سکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کل کے عربوں کو تو قرآن کا معجزہ ہونا آسانی سے سمجھ میں آ جا تا ہو۔ مگر عجمیوں کو کچھ مشکل پیش آتی ہو۔ مگر اشاعت علم کے اس دور میں کیا عرب اور کیا عجم کیا ہندی اور کیا یورپی ہرشخص اس کے اعجاز کا اعتراف کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ وہ اسے پڑھے اور اس میں غور وتد بر کرے۔
3۔ ہجرت میں فقر سے ڈر:
معاندین کا حال بیان کرنے کے بعد متقین کا تذکرہ کیا گیا ہے
اور انہیں رب العزت نے ہجرت اور دین کی راہ میں آنے والے مصائب پر صبر کی تلقین کی ہے۔
جو لوگ ترک وطن کرتے ہیں۔ انہیں معاشی ضروریات کی فکر یقینا لاحق ہوتی ہے کہ پردیس میں گھر کا چولہا کیسے جلے گا۔اس لیے تسلی دیتے ہوۓ فرمایا گیا:
کہ جو اللہ کمزور جانوروں کو رزق دیتا ہے۔ وہی تمہیں بھی دے گا۔ اس لیے ہجرت کی صورت میں تمہیں فقر سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔
آخری آیت میں پوری سورت کا خلاصہ:
کہا جاسکتا ہے کہ اس سورت کی آخری آیت میں پوری سورت کا خلاصہ اللہ تعالی نے بیان کر دیا ہے:
“جو لوگ ہمارے لیے مجاہدہ کرتے ہیں۔ ہم انہیں ضرور اپنے راستے دکھا دیتے ہیں اور بے شک اللہ نیکوکاروں کے ساتھ ہے۔”
جو لوگ اللہ کو راضی کرنے کے لیے اپنے نفس و شیطان اور دشمنان دین کے ساتھ جہاد کرتے ہیں ۔ اللہ تعالی انہیں دنیا اور آخرت میں سعادت کی راہ تک پہنچنے کی توفیق عطا فرما دیتا ہے۔