سورۃ القصص ترتیبی نمبر 28 نزولی نمبر 49
سورۃ قصص مکی سورت ہے اس میں 88 آیات اور 9 رکوع ہیں۔
وجہ تسمیہ:
اس میں تین نامور شخصیات کا تذکرہ ہے ۔ یعنی ۱۔ حضرت موسی ۲۔ فرعون ۳۔ قارون ۔
ان تینوں قصوں کی مناسبت سے سورۃ کا نام سور القصص رکھ دیا گیا۔
اس سورت کا زیادہ تر حصہ فرعون کے ساتھ حضرت موسی علیہ السلام کو جو معاملہ پیش آیا۔ اس کے بیان پر مشتمل ہے۔
حروف مقطعات سے ابتداء:
اس سورت کی ابتداء حروف مقطعات میں سے” طسم” کے ساتھ ہوئی ہے۔ اور ان حروف کے متصل بعد قرآن کریم کی حقانیت کا بیان ہے۔
1۔ حضرت موسی اور فرعون کا قصہ:
اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصہ کا آغاز ہوتا ہے۔ سورۂ قصص بتاتی ہے:
۱۔ کہ فرعون مصر میں بڑا بن بیٹھا تھا۔
۲۔ تکبر اور جور و جفا میں حد سے آگے بڑھ گیا تھا۔
۳۔ اس نے آج کے سامراج اور استعمار کی طرح مصر والوں کو مختلف گروہوں اور طبقات میں تقسیم کر رکھا تھا۔ تا کہ اس کے اقتدار کو عوام کی منظم اجتماعی طاقت سے کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔
۴۔ بنی اسرائیل جو مصر کی بہت بڑی اقلیت بن چکے تھے۔ اس کے ظلم وستم کا خصوصی ہدف تھے۔
اللہ کا ارادہ:
پھر اللہ تے کمزوروں کو اٹھانے اور زیر دستوں کو بالا دست کرنے کا ارادہ کرلیا۔
۱۔ انہی حالات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی۔
۲۔ آپ کی والدہ پریشان ہوگئیں۔ کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ فرعون کے کارندوں کو اگر خیر ہوگئی تو وہ نومولود کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔
۳۔ حکیم وخبیر رب نے ان کی رہنمائی کی ۔ انہوں نے صندوق بنایا۔ اس میں اپنے لخت جگر کولٹا کر نیل کی لہروں کے حوالے کر دیا۔
۴۔ پانی کے دوش پر تیرتے ہوئے صندوق کو فرعون کی خادماؤں میں سے ایک نے اٹھا کر اس کی اہلیہ حضرت آسیہ علیہ السلام کی گود میں لا ڈالا۔
۵۔ فرعون اس معصوم بچے کو بھی ذبح کرنا چاہتا تھا۔ لیکن رب العالمین کا فیصلہ کچھ اور تھا اور یقیناً ہوتا وہی ہے جو رب کا فیصلہ ہوتا ہے۔ انسان کی تدبیریں، سازشیں، منصوبے اور پروگرام دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔
۶۔ آسیہ رضی اللہ عنہا نے کچھ اس انداز سے بات کی کہ اس شخص کا دل بھی پسیج گیا جس کے سینے میں لگتا تھا کہ دل نہیں پتھر کا ٹکڑا ہے۔
۷۔ ادھر فر داغم کی وجہ سے بچے کی والدہ کا یہ حال ہو گیا کہ کسی مل سکون و قرار نہیں ۔ تصور ہی تصور میں صندوق کوفرعونیوں کے ہاتھ لگتے اور بچے کے گلے سے خون کا فوارہ پھوٹتے دیکھتی ہیں۔
یہ سوچنا تمہارانہیں ہمارا کام ہے:
لیکن رحیم و کریم اللہ نے اس کے اڑتے ہوۓ دل کو قرار عطا فرمایا اور وعدہ کیا کہ بچے کو تمہاری ہی گود میں واپس لوٹا دیا جاۓ گا۔
یہ معجزہ کیسے ظاہر ہوگا ؟ یہ ناممکن کیسے ممکن بنے گا؟ یہ سوچنا تمہارا نہیں ہمارا کام ہے۔
۱۔ بھوکے بچے کو کئی دایوں نے دودھ پلانے کی کوشش کی لیکن وہ کسی کا بھی دودھ پینے پر راضی نہ ہوا۔
۲۔ آپ کی بہن اجنبی بن کر یہ منظر دیکھ رہی تھی ۔ اس کے مشورہ پر بے قرار ماں کو بلایا گیا۔
۳۔ اور بطور دایہ کے بچے کو اس کی گود میں ڈال دیا گیا۔ جو گود اس کے لیے تڑپ رہی تھی۔
۴۔ فرعون نے اپنے خیال میں ایسا انتظام کیا تھا کہ کوئی اسرائیلی بچہ اپنی ماں کا دودھ بھی نہ پی سکے۔ اس سے پہلے ہی اسے تہ تیغ کر دیا جاۓ۔
اللہ کا فیصلہ:
اور اللہ کا فیصلہ یہ تھا کہ وہ بچہ جسے اپنے وقت کے سب سے بڑے ظالم اقتدار کے لیے خطرہ بننا تھا۔ اس کی پرورش اسی اقتدار کے زیر سایہ اور صاحب اقتدار کے نان نفقہ سے ہو۔
قبطی کا خون :
پھر وہی ہوکر رہا جو بچے رب کا فیصلہ تھا۔ خدائی کے جھوٹے دعوے دار کی ہر تدبیر نا کام ہو کر رہی ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جوانی کی حدود میں قدم رکھا تو آپ کے ہاتھوں قبطی کا خون ہو گیا۔
ایک مرد وفا کے مشورہ پر آپ مصر سے نکل گئے اور مدین کی راہ لی۔
یہاں نہ جان نہ پہچان نہ ٹھکانہ نہ ذریعہ معاش دعا کے لیے اس کے سامنے ہاتھ اٹھا دیے جس نے زہریلے سانپ اور آدم خور بھیڑیے کے ہاتھوں پرورش کروائی تھی۔
کہا تو بس سے کہ:
یا رب! میں تیری عطا کا فقیر اور محتاج ہوں ۔
آپ کی یہ دعا دریا بہ کوزہ کی مثال تھی ۔ اس میں وہ سب کچھ آ گیا۔ جس کا انسان محتاج ہوسکتا ہے اور انسان کس چیز کامحتاج نہیں؟
۱۔ اگر روٹی کا محتاج ہے تو بھوک کا بھی تومحتاج ہے۔
۲۔ ساۓ کا محتاج ہے تو دھوپ کا بھی محتاج ہے۔
۳۔ بیداری کامحتاج ہے تو نیند کا بھی محتاج ہے۔
ایک درخت کے سائے تلے بیٹھے تھے کہ دو باحیا اور پردہ دار بچیاں بکریوں کو ہنکاتے ہوۓ آ گئیں ۔ ان کی بکریوں کوازراہ احسان کنوئیں سے پانی کھینچ کر پلادیا۔
حضرت شعیب کے پاس:
بچیاں سمجھ دار تھیں ۔ اپنے والد حضرت شعیب علیہ السلام کے سامنے جا کر اس اجنبی مسافر کی قوت و طاقت اور امانت و دیانت کی تعریف کی۔ انہی میں سے ایک بچی کے ذریعہ بلاۓ گئے۔
۱۔ نہ صرف باعزت و راحت ٹھکانہ میسر آ گیا۔
۲۔ بلکہ چند شرائط کے تحت رشتہ کی بھی پیشکش ہوگئی۔
شادی کے بعد اہلیہ کو ساتھ لیے مصر واپس جارہے تھے کہ ٹھٹھرتے ہوۓ جنگل میں آگ بھڑکتے ہوئے دیکھی۔ آگ لینے کے لیے آگے بڑھے تو نبوت سے نواز دیے گئے۔
نبوت عطا کرنے والے نے عصا اور ید بیضا کا معجزہ دے کر اس کے سامنے کلمہ حق کہنے کا حکم دیا۔ جس نے اللہ کی زمین اللہ کے بندوں پر تنگ کر رکھی تھی اور جو اپنے سوا کسی کو بڑا ماننے کے لیے تیار نہ تھا۔
طوفانی موجوں کے حوالے:
کلمہ حق کہہ دیا گیا۔ فرعون نے نہ مانا تھا نہ مانا۔ اللہ نے اسے اٹھایا اور فوج کے پروں سمیت مادی ترقی کے اس سلوگن کو دریا کی طوفانی موجوں کے حوالے کر دیا۔۔۔۔
رہے نام اللہ کا!
نمایاں کردار :
یہ قصہ جس کے نمایاں کردار تین ہیں:
۱۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ۲۔ بنی اسرائیل اور ۳۔ فرعون جس کا کچھ حصہ یہاں اور بقیہ جزئیات پورے قرآن میں مذکور ہیں۔
اس قصہ سے بصیرتیں اور عبرتیں:
اس قصہ سے مجموعی طور پر جو بصیرتیں اور عبرتیں حاصل ہوتی ہیں ۔ وہ مولا نا حفظ الرحمن سیوہاروی رحمہ اللہ نے قص القرآن میں ذکر فرمائی ہیں۔ ہم ان کا خلاصہ اپنےالفاظ میں افادہ عام کے لیے تحریر کیے دیتے ہیں:
۱۔ اگر انسان مصائب و آلام پر صبر کرے تو دنیا اور آخرت میں اس کے اچھے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
۲۔ جوشخص اپنے معاملات میں اللہ پر بھروسہ رکھتا ہو۔ اللہ تعالی اس کی مشکلات ضرور آسان کر دیتا ہے۔
۳۔ جس کا معاملہ حق کے ساتھ عشق تک پہنچ جاتا ہے۔ اس کے لیے باطل کی بڑی سے بڑی طاقت بھی بیچ ہوکر رہ جاتی ہے۔
۴۔ اگر کوئی بندہ حق کا پرچم لے کر پوری استقامت کے ساتھ کھڑا ہو جاۓ تو دشمنوں ہی کے گروہ سے اس کے حمایتی پیدا کردیے جاتے ہیں۔
۵۔ جس کے دل میں ایمان پیوست ہو جاۓ ۔ وہ ایمان کی خاطر سب کچھ یہاں تک کہ نفقد جان بھی لٹانے کے لیے تیار ہو جا تا ہے۔
۶۔ غلامی کا سب سے بڑا اثر یہ ہوتا ہے کہ ہمت اور عزم کی روح سے انسان محروم ہو جا تا ہے۔
(اسی لیے بنی اسرائیل نے ارض مقدس میں داخل ہونے سے انکار کر دیا تھا)۔
۷۔ وراثت زمین اسی قوم کا حق ہے۔ جو میدان جدوجہد میں ثابت قدم رہتی ہے۔
۸۔ باطل کی طاقت کتنی ہی زبردست کیوں نہ ہو۔ بالآخر اس کو نامرادی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔
۹۔ اللہ کی عادت یہ ہے کہ جن قوموں کو ذلیل اور حقیر سمجھا جاتا ہے۔ ایک دن آتا ہے کہ اللہ انہیں کو زمین کا وارث بنا دیتا ہے۔
۱۰۔ جوشخص یا جماعت جان بوجھ کر قبول حق سے سرکشی کرے۔ اللہ اس سے قبول حق کی استعداد چھین لیتا ہے۔
( فرعون اور اس کے حواریوں کے ساتھ یہی ہوا)۔
۱۱۔ یہ بہت بڑی گمراہی ہے کہ انسان کو حق کی اتباع کی بدولت کامیابی حاصل ہو جاۓ تو وہ خود ہی حق سے روگردانی شروع کر دے۔
( بنی اسرائیل نے یہی کچھ کیا )
۱۲۔ ایک بہت بڑی ضلالت یہ ہے کہ انسان حق کی اتباع کی بجاۓ حق کو اپنی خواہشات کے تابع کرنا شروع کر دے۔
(يوم السبت میں شکار کی ممانعت کے باوجود اسرائیلی حیلہ بازی کرتے رہے )۔
۱۳۔ کوئی حق کو قبول کرے یا نہ کرے۔ داعی کا فرض ہے کہ وہ فریضہ دعوت ادا کرتا رہے۔
( بعض اہل حق سبت کی بے حرمتی سے آخر وقت تک منع کرتے رہے )۔
۱۴۔ ظالم حکمران قوم کی بدعملیوں کے نتیجے میں اس پر مسلط کیے جاتے ہیں۔
۱۵۔ اپنی قوم کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلا نا انبیائے کرام علیہم السلام کی سنت ہے۔
مختلف آیات میں:
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ اور فرعون کا انجام بیان کرنے کے بعد:
۱۔ مختلف آیات میں اہل مکہ کو تنبیہ کی گئی ہے۔
۲۔ اہل کتاب میں سے ایمان لانے والوں کی تعریف کی گئی ہے۔
۳۔ مشرکین کی جہالتوں اور حماقتوں کا ذکر ہے۔
۴۔ دنیائے فانی کے مال و متاع سے دھوکہ کھانے سے بچنے کی تلقین ہے۔
۵۔ قیامت کے مناظر میں سے بعض مناظر کی منظر کشی ہے۔
۶۔ اللہ تعالی کی تخلیق اور اختیار کا بیان ہے۔
دنیا کا سب سے بڑا سرمایہ دار:
ان مضامین کے بعد فرعون جیسے ایک دوسرے متکبر اور سرکش انسان کا تذکرہ ہے۔ اس کا نام قارون تھا۔
خاندانی اعتبار سے حضرت موسی علیہ السلام کا قرابت دار تھا۔ اکثر علماء نے اسے آپ کا چچا زاد قرار دیا ہے۔ اپنے وقت کا ہی نہیں شاید آج کے بین الاقوامی سرمایہ داروں میں سے بھی سب سے بڑا سرمایہ دار۔ اس کے خزانے نہیں خزانوں کی چابیاں اٹھانے کے لیے طاقتور مردوں کی ایک بڑی جماعت کی ضرورت پیش آتی تھی۔ دولت کی بہتات نے اسے خود سر اور مغرور بنا دیا تھا۔
مال و دولت پرمت اتراؤ:
حضرت موسی علیہ السلام نے اسے سمجھایا کہ مال و دولت پر مت اتراؤ۔ اللہ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اللہ نے جو کچھ دیا ہے۔ اسے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے خرچ کرو۔ جیسے اللہ نے تمہارے ساتھ احسان کیا ہے۔ اسی طرح تم بھی اللہ کے بندوں کے ساتھ احسان کرو۔ نہ کسی پر ظلم کرو اور نہ ہی روپیہ پیسہ ناجائز مصارف میں خرچ کرو۔
مال میری دانش کے زور پر ملا:
لیکن یہ ساری فہمائش اس کے سر کے اوپر سے گزرگئی اور اس نے وہی جواب دیا۔ جو ہر احمق مغرور سرمایہ دار دیا کرتا ہے۔ اس نے کہا: ” مجھے یہ مال میری دانش کے زور پر ملا ہے۔”
عذاب الہی کی زندہ گرفت:
حب دنیا میں ڈوبے ہوۓ لوگ جب قارون کی شان وشوکت دیکھتے تھے تو انکے منہ میں پانی آ جا تا تھا اور وہ اس جیسا بننے کی تمنا کرتے تھے۔ لیکن پھر یوں ہوا کہ اللہ نے اسے اس کے گھر سمیت زمین میں دھنسا دیا۔ عذاب الہی کی اس زندہ گرفت نے دنیا پرستوں کی آنکھیں کھول دیں اور انہوں نےاعتراف کیا کہ:
“اگر اللہ ہم پر احسان نہ کرتا تو ہمیں بھی دھنسا دیتا۔”
قرآن کی ایک نصیحت:
قارون کے واقعہ کے اختتام پر قرآن ایک ایسی نصیحت کرتا ہے۔ جو ہر مسلمان کواپنے پلے باندھ لینی چاہیے۔
ارشاد ہوتا ہے:
آخرت کا گھر ہم نے ان لوگوں کے لیے تیار کر رکھا ہے جو ملک میں بڑا بننے اور فساد کا ارادہ نہیں رکھتے اور انجام تو پر ہیز گاروں ہی کا ہے۔
بڑا بننے کی بیماری:
آج بڑا بننے کی بیماری عوام میں نہیں بلکہ خواص میں بھی عام ہو چکی ہے۔ جولوگ اس بیماری میں مبتلا ہیں۔ انہیں یہ آیت ہر وقت سامنے رکھنی چاہیے۔
بادشاہ اور سرمایہ دار کا عبرت ناک انجام :
اس سورت کی آخری آیت میں ہے کہ:
” اللہ کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ اس کا حکم ہے اور اس کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے۔”
فرعون جیسے بادشاہ اور قارون جیسے سرمایہ دار کا عبرت ناک انجام اس دعویٰ کی دلیل ہے کہ:
“اللہ کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔”
Surat Al-Hajj ka Urdu Mukhtsar Khulasa سورۃ الحج کا اردو میں | Quran Ki tafseer-سورہ حج
Surah Al-Isra KI Tafseer |سورہ بنی اسرائیل کی تفسیر |surah Bani Isarael Ka Kholasa