سورة الشعراء ترتیبی نمبر 26 نزولی نمبر 47
سورۃالشعراء مکی ہے اس میں 227 آیات اور 11 رکوع ہیں۔
وجہ تسمیہ:
والشعراء يشبعهم الغاؤن آیت نمبر ۲۲۴ سے ماخوذ ہے۔ (اور شاعروں کی پیروی گمراہ لوگ کیا کرتے ہیں )۔
سورت کی ابتداء حروف مقطعات میں سے” طٰسم”کے ساتھ ہوئی ہے۔
عمومی اسلوب
عمومی اسلوب کے مطابق اس کے فورا بعد بندوں پر اللہ تعالی کا بہت بڑا احسان جو کہ قرآن کی صورت میں ہے اس کا ذکر ہے۔
احساس ذمہ داری:
قرآن کے بارے میں ایک احساس ذمہ داری تو رسول اکرم ﷺ کا تھا۔ جو کہ اس کے علوم و معارف اور احکام بندوں تک پہنچانے میں اپنی جان کو ہلکان کیے ہوئے تھے اور آپ کے دل میں انسانیت کی ہدایت کا ایسا درد تھا ۔ جو لگتا تھا کہ آپ ﷺکی جان ہی لے لے گا۔
دوسرا رویہ مخالفین کا تھا۔ جن کے سامنے نصیحت اور ہدایت کی جو بھی بات آتی تھی ۔اس سے اعراض کرنا ضروری سمجھتے تھے۔
انبیاء کے تھے:
اس کے بعد اس سورت میں متعدد انبیائے کرام علیہم السلام کے قصے بیان کیے گئےہیں۔
1۔ حضرت موسی کا قصہ:
ان قصوں کی ابتداء حضرت موئی عام کے قصہ سے ہوتی ہے۔ انہیں اللہ تعالی نے نبوت عطا فرما کر فرعون کے پاس جانے کا حکم دیا۔ آپ حکم باری تعالی کی تعمیل میں خدائی کے اس جھوٹے دعوے دار کے دربار میں پہنچے۔
اس موقع پر فرعون اور آپ کے درمیان جو گفتگو ہوئی ۔ اس کی چند جھلکیاں اللہ تعالی نے سورۀ شعراء میں ذکر فرمائی ہیں:
فرعون
فرعون نے سب سے پہلے اپنے احسانات ذکر کیے کہ میں نے تمہاری تربیت کی تھی۔
حضرت موسٰی :
آپ نے فرمایا تمہیں احسان جتلانے کا کیسے حق پہنچتا ہے جبکہ تم نے میری قوم کوغلام بنا رکھا ہے۔
فرعون:
اس نے قتل کا واقعہ یاد دلایا۔ جو اتفاقا آپ کے ہاتھوں ہو گیا تھا
حضرت موسیٰ:
آپ نے جواب دیا کہ میں نے عمدا قتل نہیں کیا تھا بلہ غلطی اور خطا سے مجھ سے فعل سرزد ہو گیا تھا۔
فرعون:
فرعون نے تکبر اور استہزاء کے ساتھ سوال کیا:
“یہ رب العالمین کیا چیز ہے؟”
حضرت موسیٰ:
آپ نے فرمایا:
رب العالمین وہ ہے ۔ جس نے ارض و سما کو پیدا کیا ہے۔ ان دونوں میں اس کا حکم چاتا ہے ۔ تمہیں بھی اس نے پیدا کیا ہے اور تمہارے آباء کو بھی اس نے پیدا کیا تھا۔ وہی مشرق سے سورج کو طلوع کرتا اور مغرب میں غروب کرتا ہے۔
فرعون:
فرعون اول بکواس بکتا رہا۔ لیکن آپ نے رب العالمین کی تعریف اور تعارف تفصیل کے ساتھ ذکر کیا. پھر وہ دھمکیوں پر اتر آیا۔
حضرت موسیٰ:
آپ نے اسے معجزہ دکھانے کی پیشکش کی ۔
معجزہ نمبر1
اس کے کہنے پر آپ نے لاٹھی زمین پر ڈال دی جو کہ اژدھا بن گئی ۔
معجزہ نمبر 2
ہاتھ کو کپڑے سے باہر نکالا تو وہ سورج کی طرح چپکنے لگا۔ اس کی چمک سے فرعون اور درباریوں کی آنکھیں چندھیا گئیں۔
اس معجزہ کو اس نے سحر پر محمول کیا۔
آپ کو نیچا دکھانے کے لیے مصر سے نامی گرامی ساحروں کو جمع کر لیا۔
مصریوں کے سالانہ جشن اور عید کے دن ایک بڑے میدان میں لاکھوں کے مجمع کے سامنے مقابلے کا آغاز ہوا۔
ساحروں کی ڈالی ہوئی رسیاں اور لاٹھیاں دوڑتے ہوۓ سانپ محسوس ہونے لگے۔
حضرت موسی کی لاٹھی:
حضرت موسی علیہ السلام نے اپنی لاٹھی ڈالی تو وہ سارے سانپوں کو ہڑپ کرگئی ۔ میدان صاف ہو گیا۔
جادوگر ایمان لے آۓ:
ساحر حقیقت سمجھ گئے۔ فورا رب العالمین کے سامنے سجدے میں گر کر انہوں نے ایمان قبول کر لیا۔
فرعون کی دھمکیاں:
فرعون کی مار دھاڑ کی دھمکیوں کے باوجود ایمان پر جمے رہے۔
حضرت موسی علیہ السلام اللہ کے حکم سے بنی اسرائیل کو رات کی تاریکی میں مصر سےلے کر نکل گئے ۔
فرعون کا تعاقب:
صبح ہوئی تو فرعون نے لاکھوں کا لشکر لے کر تعاقب کیا۔ بالآخر دریا کے کنارےبنی اسرائیل کو جالیا۔
فرعون لشکر سمیت غرق:
دریا میں راستے بن گئے ۔ جن سے گزر کر بنی اسرائیل نجات پاگئے اور فرعون لاؤلشکر سمیت غرق ہو گیا۔
اس قصہ سے سبق:
اس قصہ سے سبق ملا کہ بالآخر اہل حق کامیاب ہوتے ہیں اور ظالموں کا مقدر ہلاکت کے سوا کچھ نہیں۔
2۔ حضرت ابراہیم کا قصہ:
دوسرا قصہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بیان ہوا ہے۔
جن کے والد آزر اور قوم بتوں کی عبادت کرتی تھی ۔ آپ نے ان کوبڑی حکمت کے ساتھ ایمان و توحید کی دعوت دی۔
اللہ کی پانچ صفات
اس پر پانچ دلائل اور اللہ تعالی کی پانچ صفات بیان کیں:
۱۔ وہ میرا خالق و ہادی ہے۔
۲۔ وہ رازق ہے۔
۳۔ وہ بیماریوں سے شفا دیتا ہے۔
۴۔ وہی موت دے گا۔ وہی زندہ کرے گا ۔
۵۔ وہ دنیا و آخرت میں گناہ معاف کرنے والا ہے۔
ان پانچ صفات کے مقابلے میں پانچ دعائیں بھی کیں۔ جو کہ کمال ایمان اورصدق یقین کی نشاندہی کرتی ہیں ۔
۱۔ اے اللہ مجھے فہم وعلم عطا فرما۔
۲۔ لوگوں میں میرا اچھا ذکر جاری فرما۔
۳۔ مجھے جنت میں جگہ عنایت فرما۔
۴۔ میرے والد کو معاف کر دے۔
( یہ دعا اس وقت کی تھی جب کہ والد کا کفر پر اصرار آپ کے سامنے واضح نہیں ہوا تھا)
۵۔ مجھے آخرت میں رسوا نہ فرمانا۔
اس قصہ سے سبق:
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قصہ سے ہمیں یہ سبق ملا کہ انسان کو ہر حال میں اللہ ہی کی طرف متوجہ ہونا چاہیے ۔
3۔ حضرت نوح کا قصہ:
تیسرا قصہ حضرت نوح علیہ السلام کا ہے۔ جنہوں نے اپنی قوم کو ساڑھے نو سو سال ایمان کی دعوت دی۔
پوری قوم کو غرق کر دیا گیا:
لیکن انہوں نے حضرت نوح کی دعوت کوٹھکرادیا رد کر دیا۔ چنانچہ ان سب کو غرق کر دیا گیا۔
اس قصہ سے سبق:
اس قصہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہدایت اسی کوملتی ہے۔ جسے اللہ چا ہے۔
4۔ حضرت ہود کا قصہ:
چوتھا قصہ حضرت ہود علیہ السلام کا ہے ۔ یہ قوم عاد کے نبی تھے۔
دنیا کی ایک نمایاں قوم :
یہ لوگ جسمانی قوت عمر کی طوالت اور خوشحالی کے اعتبار سے دنیا کی ایک نمایاں قوم تھے۔ انہوں نے بغیر ضرورت کے بڑے بڑے محلات تعمیر کر رکھے تھے۔ انہوں نے بھی ایمان کی دعوت کو ٹھکرادیا۔ چنانچہ ان پر بھی اللہ کا عذاب آ کررہا۔
اس قصہ سے نصیحت :
ان کے قصہ سے یہ نصیحت ملی کہ فضول خرچی نمودو نمائش بلاضرورت تعمیرات اور تکبر کا انجام بھی اچھانہیں ہوتا۔
5۔ حضرت صالح کا قصہ:
پانچواں قصہ حضرت صالح علیہ السلام کا ہے۔
ان کی قوم کو مادی وسائل رزق کی فراوانی اور امن وتحفظ حاصل تھا۔ سرسبز باغات اور بارونق زمینوں میں آباد تھے۔ لیکن انہوں نے اللہ کی نعمتوں کا شکر نہ کیا۔ چنانچہ ان کو زلزلہ کے ذریعہ ہلاک کر دیا گیا۔
اس قصہ سے سبق:
یہ ملتا ہے کہ ہر ناشکری قوم کا انجام یہی ہوتا ہے۔
6۔ حضرت لوط کا قصہ:
چھٹا قصہ حضرت لوط علیہ السلام کا ہے۔
شہوت پرستی:
جن کی قوم فسق و فجور شہوت پرستی اور بدکاری میں حد سے بڑھ گئی تھی ۔ وہ ایسا عمل کرتے تھے۔ جو ان سے پہلے کسی نے نہیں کیا تھا۔ جس سے حیوان بھی نفرت کرتے ہیں۔
آسمان سے پتھروں کی بارش:
ان پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسی اور ان کا نام ونشان مٹ گیا۔ اللہ تعالی دوسرے قصوں کی طرح اس قصہ کے آخر میں بھی فرماتے ہیں:
“بے شک اس میں نشانی ہے۔ ان میں اکثر ایمان لانے والے نہیں تھے۔”
نشانی اور عبرت یہی ہے کہ نفسانی خواہشات کی تکمیل میں حد سے تجاوز کر نے والی قوم اور فرد کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔
حضرت شعیب کا قصہ:
ساتواں قصہ حضرت شعیب علیہ السلام کا ہے۔
قوم پر اللہ کی نعمتیں :
ان کی قوم کو اللہ تعالی نے مختلف نعمتیں عطا فرمائی تھیں۔
۱۔ گھنے جنگلات تھے ۲۔ ثمر بار باغات ۳۔ اور میٹھے پانی کے چشمے تھے۔
حقوق العباد :
لیکن یہ اللہ کی نافرمانی میں مبتلا ہو گئے۔ ان کے مختلف معاصی میں سے ایک بڑی معصیت میتھی کہ وہ حقوق العباد کی ادائیگی میں ڈنڈی مارتے تھے۔
جب سمجھانے کے باوجود باز نہ آۓ تو اللہ نے ان کو عذاب دینے کا فیصلہ کیا۔ کئی دن تک سخت گرمی رہی۔ پھر بادل چھا گئے ۔ یہ لوگ ٹھنڈک کے حصول کے لیے بادل کے نیچے جمع ہو گئے۔
بادلوں سے آگ برسنے لگی۔ زمین پر زلزلہ طاری ہو گیا اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے کوئلہ بن کر رہ گئے۔
اس قصہ سے سبق:
قوم شعیب کا واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ حقوق العباد غصب کرنا اللہ کے عذاب اور غضب کو دعوت دینے والا عمل ہے۔
سورت کی ابتداء:
جیسے اس سورت کی ابتداء قرآن عظیم کے ذکر سے ہوئی تھی
سورت کا اختتام :
اسی طرح اس کا اختتام بھی قرآن کریم کے حوالے سے مشرکین کے باطل اعتراضات کی تردید سے ہورہا ہے۔
>surah ash-shura
>surah shura,quran
>khulasa e quran
>khulasa e quran sureh shura
>khulasa mazameen e quran
>khulasa e quran sureh zukhurf
>khulasa e quran sureh dukhan
>surah ash shura,surah ash-shura [42]
>khulasa quran urdu
>surah ash-shura ayat 13
>surah ash-shura ayat 30
>khulasa quran,surah ash
>shura summary
>surah ash-shura meaning
>surah ash-shura in hindi
>surah ash-shura benefits