Surat Al-Hajj ka Urdu Mukhtsar Khulasa سورۃ الحج کا اردو میں | Quran Ki tafseer-سورہ حج

سورۃالحج ترتیبی نمبر 22 نزولی نمبر 103
سورہ حج مدنی سورت ہے اور اس میں 78 آیات اور 10 رکوع ہیں۔

 

Surat Al-Hajj ka Urdu Mukhtsar Khulasa سورۃ الحج کا اردو میں | Quran Ki tafseer-سورہ حج
Surat Al-Hajj ka Urdu Mukhtsar Khulasa سورۃ الحج کا اردو میں | Quran Ki tafseer-سورہ حج

وجہ تسمیہ

کیونکہ اس صورت میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی زبان سے لوگوں پر حج کی فرضیت کا اعلان کروایا گیا ہے اس لیے اسے سورہ حج کہا جاتا ہے۔

مکی صورتیں

قارئین کرام یہ بات تو بار بار پڑھ چکے ہیں کہ مکی سورتوں میں عام طور پر عقائد سے بحث ہوتی ہے۔

مدنی سورتیں

جبکہ مدنی سورتوں میں مسائل و احکام زیر بحث آتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مدنی سورتوں میں عقائد ذکر نہیں کئے جاتے۔

عمومی اور کلی کا ارادہ

مذکورہ بالا اصول غالب مضمون کے اعتبار سے ہے عمومی اور کلی کا عہدہ ہرگز نہیں۔

دونوں مضامین

سورہ حج ہی کو لے لیجئے:
۱۔ یہ اگرچہ مدنی ہے اور اس میں ہجرت و جہاد حج اور قربانی جیسے شرعی احکام بھی ہیں۔
۲۔ لیکن اس میں مکی سورتوں والے موضوعات زیادہ ہیں یعنی:
عقیدہ توحید ، وعید وانزار ، بعث و جزا، جنت اور دوزخ قیامت کے مناظر اور ہولناکیاں۔

قیامت کے مناظر

سورت کی ابتداء اس انداز سے ہوئی ہے کہ دل دہل جائیں گے اور جسم پر کپکپی طاری ہو جائے گی ارشاد ہوتا ہے:
لوگوں اپنے رب سے ڈرو بیشک قیامت کا زلزلہ بڑا حادثہ ہے۔ تم اس دن دیکھو گے کہ دودھ پلانے والی ہر عورت اپنے بچے کو بھول جائے گی۔ اور ہر حمل والی کا حمل گر جائے گا۔ اور لوگ تم کو مدہوش نظر آئیں گے حالانکہ وہ مدہوش نہیں ہوں گے لیکن اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے۔ (اسے دیکھ کر لوگوں کے ہوش و حواس اڑ جائیں گے)

اہم مضامین

1۔ بعث و نشور

قیامت کا ذکر کرنے کے بعث و نشوریعنی دوبارہ زندہ ہونے پر دو وجہ سے استدلال کیا گیا ہے۔

پہلا استدلال انسان کی تخلیق کے مراحل

پہلا استدلال انسان کی تخلیق کے مختلف مراحل سے ہے انسان اپنی پیدائش اور تقوی میں سات مراحل سے گزرتا ہے۔
۱۔ انسانوں کے باپ حضرت آدم علیہ السلام کو بلا واسطہ مٹی سے پیدا کیا گیا بالواسطہ ہر انسان کو مٹی سے تعلق ہے۔
۲۔ ہر انسان منی اور نطفہ سے پیدا ہوتا ہے منی خون سے خون غذا سے اور غذا مٹی سے پیدا ہوتی ہے۔ مٹی اور نطفہ کے درمیان زندگی کا راز پوشیدہ ہے۔
۳۔ تیسرے مرحلہ میں خون کا لوتھڑا بنتا ہے۔
۴۔ چوتھے مرحلہ میں بوٹی بنتی ہے۔ جس کی بناوٹ کامل بھی ہوتی ہے اور ناقص بھی ہوتی ہے۔
۵۔ پانچویں مرحلہ میں بچہ پیدا ہوتا ہے جو کہ حواس کے اعتبار سے کمزور ہوتا ہے۔
۶۔ چھٹا مرحلہ میں وہ جوان ہو جاتا ہے اور قوت و عقل کے کمال کو پہنچ جاتا ہے۔
۷۔ ساتواں مرحلہ میں یا تو وہ جوانی ہی میں انتقال کر جاتا ہے یا اتنا بڑا ہو جاتا ہے کہ اس پر بچپن کا گمان ہوتا ہے۔

دوسری زندگی کا انکار

وہ انسان جو خود ان کے مراحل سے گزرتا ہے۔ وہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ اللہ دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں۔ بالخصوص آج کا انسان جو کہ جانتا ہے کہ ایک نسخہ اور جرثومہ میں باری تعالی نے تمام انسانی خواص چھپا رکھے ہیں۔ یہ معلومات رکھنے والا انسان کیسے فنا کے بعد دوسری زندگی کا انکار کر سکتا ہے۔

دوسرا استدلال

دوسری دلیل بعث کے امکان پر یہ دی گئی ہے کہ مردہ زمین پر اللہ بارش برساتا ہے تو اس میں زندگی جاگ اٹھتی ہے اور طرح طرح کی چیزیں اگنے لگتی ہیں۔ جورب مردہ زمین کو زندہ کر سکتا ہے۔ وہ مردہ انسانوں کو بھی زندہ کر سکتا ہے۔

2۔ ایمان اور دین کی کرنسی

کچھ لوگ تو واضح طور پر گمراہ ہیں۔
اور کچھ ایسے ہیں جو مذبذب ہیں۔ گر انہیں کچھ دنیا بھی فائدہ حاصل ہو تو عبادت میں لگے رہتے ہیں اور دین پر جمے رہتے ہیں۔ اور اگر فائدہ کی بجائے کسی آزمائش کا سامنا کرنا پڑ جائے تو پیٹھ پھیر جاتے ہیں۔
ان احمقوں نے گویا ایمان اور دین کو کرنسی سمجھ رکھا ہے۔ جس کے کھرا یا کھوٹا ہونے کا فیصلہ وہ دنیوی نفع اور نقصان کے اعتبار سے کرتے ہیں۔

3۔ ملل اور مذاہب

ملل اور مذاہب کا جائزہ لیا جائے تو انہیں چھ گروہوں اور جماعتوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

مسلمان

مسلمان جو کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہیں قرآن پر ایمان رکھتے ہیں اور اصحاب قرآن ہیں۔

یہودی

یہودی حضرت موسی علیہ السلام کے امتی اور اصحاب تورات ہیں۔

عیسائی

عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے امتی اور اصحاب انجیل ہیں۔

صابی

صابی یہ فرقہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں تھا۔ ستاروں کے عبادت کرتے تھے۔

مجوس

مجوس یہ کسی آسمانی مذہب کے پیروکار نہیں تھے۔ سورج چاند اور آگ کی پرستش کرتے تھے۔

مشرک

بتوں کی پوجا پاٹ کرنے والے۔

شیطانی فرقے

ان میں سے پانچ فرقے شیطان کے ہیں۔

رحمانی فرقہ

اور صرف پہلا فرقہ رحمان کا ہے۔ ان فرقوں کے درمیان قیامت کے دن فیصلہ کیا جائے گا۔

4۔ اللہ کے محارم کی تعظی:

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے بیت اللہ کی تعمیر کی۔ اس کے بعد جبل ابی قبیس پر کھڑے ہو کر اعلان کیا۔ اللہ تعالی اپنی قدرت کاملہ سے یہ اعلان ارض و سماں میں رہنے والوں تک پہنچا دیا اور ہر کسی نے اسے سن لیا حج اور شعائر حج کی مناسبت سے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اللہ کے محارم کی تعظیم ایمان کی علامات میں سے ہے۔ جیسے نیکیوں کے کرنے میں اجر عظیم ہے۔ اسی طرح اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں اور اعمال سے بچنے میں بڑا ثواب ہے۔

5۔ مومنوں کے علامات

حقیقی مومنوں کی چار علامات ہیں
۲۔ اللہ کا خوف ۔ ۲۔ مصائب پر صبر ۳۔ نماز کی پابندی
۴۔ نیک مصارف میں خرچ کرنا۔

6۔ بندوں کا تقوی

جانوروں کی قربانی کا حکم دینے کے بعد بتایا گیا ہے کہ ان کا خون اور گوشت اللہ تک نہیں پہنچتا۔ بلکہ اللہ تک بندوں کا تقوی پہنچتا ہے۔
جس کے دل میں تقویٰ ہو گا وہ گناہوں سے بچے گا اور نیک اعمال میں صرف اللہ کی رضا کے لئے کرے گا۔

جہاد و قتال کی اجازت

مناسک حج کا ذکر کرنے کے بعد مسلمانوں کو جہاد و قتال کی اجازت دی گئی ہے۔ کیونکہ کفار مسلمانوں کو اللہ کے دین سے اور مکہ میں داخل ہونے سے روکتے تھے۔ ابتدا میں اگرچہ صبر کی تلقین کی جاتی رہی لیکن جب مدینہ میں مسلمانوں کے قدم جم گئے اور ان کی طرف سے تحمل و برداشت کے رویے کے باوجود مشرکین کی شرارتوں اور زیادتیوں کا سلسلہ جاری رہا تو اب انہیں سورہ حج کی آیت نمبر ۳۹کے ذریعے قتال کی اجازت دے دی گئی۔

تقریبا ستر آیات کے بعد یہ پہلی آیت

متعدد صحابہ اور تابعین کی رائے یہ ہے کہ تقریبا 70 آیات میں ہاتھ روک کر رکھنے کی تلقین کے بعد یہ پہلی آیت تھی جس میں قتال کی اجازت دی گئی۔

جہاد کی حکمت

ساتھ ہی جہاد کی حکمت بھی بیان کردی گئی وہ یہ کہ اگر اللہ جہاد کی اجازت نہ دیتا تو پھر دشمن خود سر ہو جاتے اور اہل کفر مومنوں پر چھا جاتے۔ جس کی وجہ سے عبادت خانے بھی روانہ ہو جاتے۔ لیکن جب انہیں اینٹ کا جواب پتھر سے ملنے کا ڈر ہو گا تو وہ اس اقدام سے پہلے سو بار سوچیں گے۔

افسوس

افسوس کے آج کفار کو مسلمانوں کی طرف سے نہ اقدام کا ڈر ہے نہ دفاع کا یقین ہے۔ اس لئے وہ جنگلی درندوں کی طرح اسلامی ممالک میں دندناتے پھر رہے ہیں۔

8۔ مقصد بعث

دوسرے انبیاء کی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد بھی دعوت کا پہنچا دینا تھا۔ آپ اپنے مقصد بعثت کی تکمیل میں لگے رہے اور مشرکین تمسخر اور آپ کی دعوت میں شبہات پیدا کرنے کا کام کرتے رہے۔ ہر نبی کے ساتھ یہی معاملہ ہوتا آیا ہے۔ دوسری طرف اللہ کا بھی دستور رہا ہے کہ وہ شیاطین کے پیدا کردہ وساوس اور شبہات کا ازالہ کرتا رہا ہے۔

شیاطین کے طریقے

آج بھی اہل مغرب زمانہ قدیم کے شیاطین کے طریقے کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے اسلامی عقائد اور تعلیمات میں وسوسہ انگیزی کرتے رہتے ہیں۔

تشریعی احکام پر سورة کا اختتام

قدرت الہیہ کے دلائل بیان کرنے اور کفار کے معبودان باطلہ کی تردید کے بعد دوبارہ تشریعی احکام کی طرف کلام کا رخ مر جاتا ہے۔ اور اہل ایمان کو جہاد فی سبیل اللہ اقامت صلوٰۃ اور ادائیگی زکوۃ کا حکم دیا گیا ہے۔ انہی احکام پر سورۀ حج کا اختتام ہو جاتا ہے۔

سورہ حج آیت 73
>سورہ حج کی فضیلت
>سورہ حج کی تفسیر
سورہ حج آیت 40
>سورۃ الحج کی آیت نمبر 41 کا ترجمہ اور تفسیر تحریر کریں
سورہ حج آیت 38
سورہ حج آیت 37
>سورہ الحج کا تعارف

Leave a Comment