پارہ 17
سورۃ الانبیاء ترتیبی نمبر 21 نزولی نمبر 73
Surah e Al-Anbiya
سورۃ الانبیاء مکی سورت ہے اور اس میں ایک سو بیس آیات اور سات رکوع ہیں۔
اس سورۃ میں تقریبا سترہ انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر آیا ہے اس لیے اسے انبیاء کی مناسبت سے سورۃ الانبیاء کہا جاتا ہے۔
میری قدیم دولت اور کمائی
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ سورہ بنی اسرائیل ، کہف، مریم ، طٰہٰ اور انبیاء نزول کے اعتبار سے پہلی اور میری قدیم دولت اور کمائی ہیں۔
اہم مضامین
1۔دنیا کی زندگی کا زوال
سورۃ الانبیاء کی ابتدا میں دنیا کی زندگی کے زوال کی تصویر کشی کی گئی ہے۔
قیامت کا وقوع
اور بتایا گیا ہے کہ قیامت کا وقوع اور حساب کا وقت بہت قریب آ گیا ہے لیکن اس ہولناک دن سے انسان غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ نہ تو اس کے لیے تیاری کرتے ہیں نہ ہی ایسے اعمال کرتے ہیں جو وہاں کام آئیں گےُ
عظمت والا کلام
ان کے سامنے جب بھی کوئی نئی آیت آتی ہے اس کا مذاق اڑاتے اور اسے جھٹلا دیتے ہیں۔ وہ جانتے ہی نہیں کہ اس عظمت والے کلام کو کس سنجیدگی وقار اور عاجزی کے ساتھ سننا چاہیے۔
2۔ یہ رسول نہیں ہے
مشرکین آپس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہتے تھے کہ یہ شخص جو رسالت کا دعویدار ہے یہ رسول نہیں ہے بلکہ تمہارے جیسا ایک انسان ہے اور یہ دوسرے انبیاء جسیے مادی معجزات کے پیش کرنے سے عاجز ہے۔
قرآن نے جواب دیا ہے کہ جتنے بھی انبیاء پہلے آئے ہیں سب کے سب انسان تھے۔ کھاتے پیتے تھے۔ اور دوسرے انسانی تقاضے بھی پورے کرتے تھے۔ کوئی ایک نبی بھی ایسا نہیں تھا جو بشری تقاضوں سے پاک ہو۔
ایسی کتاب جس میں تمہارا تذکرہ ہے
جہاں تک معجزات کا تعلق ہے تو قرآن سے بڑا معجزہ کون سا ہوسکتا ہے۔ اس کے وجوہ اعجاز میں سے ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ قرآن کے آئینہ میں مختلف عقائد و خیالات اور اخلاق و اعمال کے لوگ اپنا چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ اس میں ہر قوم اور ہر شخص کا تذکرہ موجود ہے۔ کہیں صراحتًہ اور کہیں اشارتہً۔ ارشاد باری تعالی ہے ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے کیا تم نہیں سمجھتے۔
قرآن لانا میں اپنا تذکرہ تلاش کروں
مشہور تابعی اور عرب سردار حضرت احنف بن قیس رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں آتا ہے کہ ایک دن بیٹھے ہوئے تھے کسی نے یہی آیت پڑھ دی وہ چونک پڑے اور کہا ذرا قرآن مجید تو لانا میں اس میں اپنا تذکرہ تلاش کرو اور دیکھو میں کن لوگوں کے ساتھ ہوں اور کن لوگوں سے مجھے مشابہت ہے لوگوں کے احوال پڑھتے رہے۔
۱۔ پہلے ان انہوں نے وہ آیات پڑھیں۔ جن کے اندر ان سعادت مندوں کا تذکرہ ہے جن میں سے کسی نے جان اللہ تعالی کی راہ میں قربان کر دی۔ کسی نے سارا مال خرچ کر دیا۔ رات بھر بستر سے جدا رہتا ہے اور کوئی برائی کے قریب بھی نہیں پھٹکتا۔
۲۔ پھر وہ آیات پڑھیں جن میں مشرکوں کافروں منافقوں اور فاسقوں کا ذکر ہے۔ دونوں قسم کی آیات پڑھنے کے بعد وہ کہہ اٹھےکہ:
اےاللہ میں ان دونوں گرہوں میں سے نہیں ہوں۔
۳۔ پھر انہوں نے سورۃ توبہ کی آیت پڑھی جس میں ایسے لوگوں کا ذکر ہے۔ جس سے گناہ بھی ہوئے اور انھوں نے نیک اعمال بھی کیے اور یہ آیت کریمہ پڑھ کر وہ پکار اٹھے کہ: ہاں یہ میرا تذکرہ ہے۔
یوں بالآخر انہوں نے قرآن میں اپنا تذکرہ تلاش کر ہی لیا۔
مشرکین کے مضحکہ خیز اور حماقت آمیز حرکتیں
مشرکین کے مضحکہ خیز اور حماقت آمیز حرکتوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ وہ قرآن کے بارے میں کسی ایک رائےپر متفق نہ تھے۔
۱۔ کبھی کہتے کہ یہ سحر ہے ۲۔ کبھی کہتے یہ شعر ہے
۳۔ کبھی کہتے یہ خواب پریشان ہے۔ ۴۔ کبھی اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا افترابتاتے۔ ۵۔ اور کبھی کسی سے سیکھا ہوا کلام قرار دیتے۔
قرآن کہتا ہے
ان کے اضطراب اور اختلاف کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے:
بلکہ وہ کہتے ہیں قرآن خواب پریشان ہے۔ بلکہ اس نے اس کو اپنی طرف سے بنا لیا ہے۔ بلکہ یہ شاعر اور قرآن شعر ہے۔ تو جیسے مادی معجزات پہلے انبیاء لے کر آئے تھے۔ اسی طرح یہ بھی لائے۔
اس کے بعد قرآن نے مشرکین کو ان ظالم قوموں کے انجام کی طرف متوجہ کیا ہے جنہیں اللہ نے بصارت اور بصیرت رکھنے والوں کے لئے عبرت کا سامان بنا دیا۔ ان تباہ شدہ قوموں نے جب عزاب الہی کے آثار دیکھے تو بھاگ نکلنے کی کوشش کی لیکن اللہ نے انہیں مہلت نہ دی اور انہیں راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔
اب بھاگنے کی کوشش نہ کرو
ان سے کہا گیا اب بھاگنے کی کوشش نہ کرو بلکہ واپس لوٹو۔ اسی عیش وعشرت کی طرف جس نے تمہیں مدہوش کر رکھا تھا انہی بلند و بالا مکانات کی طرف جن پر تمہیں بڑا نازتھا۔ انہی قصبوں اور محلوں کی طرف جہاں تم اکڑ اکڑ کر چلا کرتے تھے وہاں جاؤ۔ تاکہ جب سوال کرنے والے تم سے نزول عذاب کے بارے میں سوال کریں تو تم انہیں جواب دے سکو۔ حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ انہیں استہزاء اور تذلیل کے طور پر کہی گئی تھی۔
3 . اللہ نے یہ سب کچھ لہو ولعب کے لیے پیدا نہیں کیا
کائنات کی اس کھلی ہوئی کتاب میں رب العالمین کی وحدانیت کے بے شمار دلائل بکھرے ہوئے ہیں۔ اس کائنات میں ارض وسماء شمس و قمر اور لیل و نہار کی صورت میں جو کچھ بھی ہے۔ اسے اللہ نے لہو ولعب کے لیے پیدا نہیں کیا۔ بلکہ حکمت کے تحت اور اس مقصد کے لیے پیدا کیا ہے کہ انسان اس میں غور و فکر کرے اور عبرت حاصل کرے اس عالم رنگ و بوکی ہر چیز اللہ کی اطاعت اور تسبیح میں لگی ہوئی ہے۔ سوائے کافر انسان کے جس نے اپنا وتیرہ غفلت اور سرکشی کو بنا لیا ہے۔
4۔ دلیل کا مطالبہ
مشرکین جو کہ اللہ کو چھوڑ کر جمادات کے سامنے جھکتے تھے انہیں زجروتوبیخ کی گئی ہے اور دلیل کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ واقعی یہ بت عبادت کے مستحق ہیں۔
ظاہر ہے ان کے پاس اپنے شرک اور بت پرستی کے جواز پر عقلی دلیل تھی اور نہ ہی نقلی دلیل تھی۔
5۔ چھ دلائل
مشرکین کے باطل نظریات کی تردید کے بعد ایک خالق اور قادر کے وجود پر چھ دلائل ذکر کیے گئے ہیں۔ یہ سب کے سب تکوینی دلائل ہیں جن کا نظروں سے مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ اور جن کی حقیقت کو بحث اور تحقیق کے بعد اہل علم نے تسلیم کیا ہے۔
۱۔ آسمان اور زمین میں دونوں ملے ہوئے تھے
پہلی دلیل یہ دی کہ آسمان اور زمین ملے ہوئے تھے ہم نے دونوں کو جدا جدا کر دیا۔ آسمان کو فرشتوں کا مسکن بنا دیا اور زمین کو انسانوں کا۔ قرآن نے جو آسمان اور زمین کے جڑے ہونے کا نظریہ پیش کیا اسے نہ عرب جانتے تھے اور نہ ہی اس وقت کی دوسری معاصر اقوام میں سے کوئی قوم اس نظریہ سے باخبر تھی۔
ماہرین ارضیات اور فلکیات
ابھی تقریبا دو سو سال ہوئے کہ ارضیات اور فلکیات کے ماہرین طویل تجربات اور مشاہدات کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سارے سیارے خواہ ہوں سورج اور ستارے ہوں یا زمین اور چاند یہ سب آپس میں ملے ہوئے تھے۔ پھر یہ ایک دوسرے سے جدا ہوئے۔ جب کہ قرآن نے آج سے چودہ سو سال پہلے یہ حقیقت بلاخوف تردید بیان کر دی تھی۔ اسے قرآن کے معجزہ کے سوا کیا نام دیا جا سکتا ہے۔
۲۔ ہر جاندار چیز کو پانی سے بنایا ہے
دوسری دلیل یہ دی کہ ہم نے ہر جاندار چیز کو پانی سے بنایا ہے۔ یہ ایک عظیم انکشاف تھا جو ایک امی کی زبان سے کروایا گیا۔ اور آج دنیا بھر کے اہل علم تسلیم کرتے ہیں کہ تمام زندہ اشیاء کے وجود میں پانی کو بنیادی عنصر کی حیثیت حاصل ہے۔
پانی کے بغیر زندگی محال ہے
پانی کے بغیر زندگی محال ہے۔ خواہ حیوان ہوں یا درخت اور پودے سب پانی کے محتاج ہیں۔ آپ چاند کو دیکھ لیجئے وہ اپنی بناوٹ میں زمین کے مشابہ ہے لیکن چونکہ وہاں پانی نہیں ہے اس لیے اس کی سطح پر زندگی ناممکن ہے۔
۳۔ زمین پر پہاڑ بنائے
تیسری دلیل یہ دی کہ ہم نے زمین پر پہاڑ بنائے تاکہ لوگوں کے بوجھ سے زمین ہلنے نہ لگے۔ اگر یہ پہاڑ نہ ہوتے تو زمین مسلسل زلزلے اور سیلاب کی زد میں رہتی اور زمین کی تہہ میں جو آگ بھڑک رہی ہے اس سے حفاظت نہیں ہو سکتی تھی۔
زمین کبھی کبھی سانس لیتی ہے
اب بھی دنیا میں کہیں کہیں ایسے آتش فشاں پہاڑ پائے جاتے ہیں۔ جن کے ذریعہ گویا کہ زمین کبھی کبھی سانس لیتی ہے اور اس میں بھڑکنے والی آگ پرباہر دکھائی دیتی ہے اگر زمین کی جلد سخت نہ ہوتی اور اس پر پہاڑوں کا بوجھ نہ ہوتا تو یہ آگ زندگی محال کر دیتی۔
۴۔ زمین میں کشادہ راستے
چوتھی دلیل یہ دی کہ ہم نے زمین میں کشادہ راستے بنائے ہیں تاکہ لوگ ان پر چلیں۔ آپ ہموار میدانوں کو چھوڑ دیں پہاڑی سلسلوں ہی کو دیکھ لیجئے جو ملک در ملک چلے جاتے ہیں لیکن اللہ تعالی نے ان کے درمیان کشادہ وادیاں اور راستے رکھے ہیں۔ جن کی وجہ سے انسانوں کو اپنے اسفار میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔
۵۔ آسمان کو محفوظ چھت بنایا
پانچویں دلیل یہ بھی ہے کہ ہم نے آسمان کو محفوظ چھت بنایا ہے اس چھت میں لاکھوں ستارے سورج اور چاند جو اپنے اپنے مدار میں انتہائی تیز رفتاری سے گھوم رہے ہیں نہ ان میں ٹکراؤ ہوتا ہے اور نہ ہی وہ خلط ملط ہوتے ہیں۔
کون ہے جو اس نظام کو سنبھالے ہوئے ہے
اگر ایک ستارہ بھی اپنے مدار سے ہٹ جائے تو نظام عالم میں خلل واقع ہو جائے۔ تو وہ کون ہے جو اس سارے نظام کو سنبھالے ہوئے ہے اور کسی کو بھی ایک مخصوص رفتار اور راستے سے ادھر ادھر نہیں ہونے دیتا۔ کیا لات وہبل؟ کیا عزیٰ اور منات ؟ نہیں۔ رب العالمین کے سوا کوئی نہیں۔
۶۔ رات اور دن ، سورج اور چاند ، نجوم اور افلاک کیحرکت کا نظریہ
چھٹی دلیل تکوینی دلیل میں سے یہ دی کہ رات اور دن اور سورج اور چاند کو اللہ نے بنایا ہے۔ یہ سب آسمان میں تیر رہے ہیں جیسے مچھلی پانی میں تیرتی ہے۔ انہیں یکے بعد دیگرے آنے جانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی اور یہ کبھی رکتے بھی نہیں۔ مسلسل چلتے رہتے ہیں حرکت ہی میں ان کی زندگی ہے۔
رات اور دن اور سورج اور چاند نجوم اور افلاک کی حرکت کا نظریہ قرآن نے اس وقت پیش کیا تھا جب اس حوالے سے بڑے بڑے باخبر بھی بے خبر تھے۔ اس قرآنی نظریہ کی علم میں جدید تائید کر رہا ہے۔ سائنسدانوں نے تو رصدگاہوں اور جدید ترین مشینوں سے لیس لیبارٹریوں میں برس ہا برس کی تحقیق کے بعد اس علمی حقیقت کو دریافت کیا ہے۔
بے خبروں کو باخبر
مگر سوال یہ ہے کہ وہ نبی امید سے لکھنا پڑھنا بھی نہیں آتا تھا اس کے پاس وحی کے سوا کون سا راستہ تھا جس کے ذریعے خبریں پاکر وہ پوری دنیا کو باخبر کر رہا تھا کہ نبی امی کی مبارک زبان سے ان حقائق کا بیان ہونا اس کی صداقت کی دلیل نہیں؟
یقین ہے مگر اس دلیل کو تسلیم کرنے کے لیے آنکھوں سے تعصب اور عناد کی پٹی اتارنا ضروری ہے۔
توحید نبوت اور معاد اور حساب و جزا پر دلیل دینے کے بعد ستر انبیاء علیہم السلام کے قصے ذکر کیے گئے ہیں۔
۱۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام
حضرت ابراہیم علیہ السلام جنہیں دعوت توحید اور تردید شرک کی وجہ سے دہکتی ہوئی آگ میں گرا دیا گیا مگر اللہ نے ان کی حفاظت فرمائی۔
۲۔ حضرت لوط علیہ السلام
آپ کے بھتیجے حضرت لوط علیہ سلام جنہیں ایک بدترین قوم کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا۔
۳۔ حضرت نوح علیہ السلام
حضرت نوح علیہ السلام جنہیں ان کی طویل عمر اور اللہ تعالی کی راہ میں صبر و تحمل کرنے کی وجہ سے شیخ الانبیاء بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے 950 سال تک فریضہ دعوت سرانجام دیا۔
۴۔ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام:
حضرت داؤد اور ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہما السلام کا قصہ جو نبی بھی تھے اور بادشاہ بھی انہیں روحانی اور مادی دونوں طرح کی نعمتوں سے خوب نوازا گیا تھا۔
۵۔ حضرت ایوب علیہ السلام
حضرت ایوب علیہ السلام جن مصائب و آلام کے ذریعہ آزمایا گیا ۔ انہوں نے ایسے صبر کا مظاہرہ فرمایا کہ ان کا صبر ضربالمثل بن گیا وہ مسلسل اللہ تعالی کی طرف متوجہ رہے ان کی توجہ نے رحمت باری تعالی کو متوجہ کر ہی لیا ان کی دعائیں قبول ہوئیں اور دور ابتلا ختم ہوگیا۔
۶۔ حضرت یونس علیہ السلام
حضرت یونس علیہ السلام کا قصہ جنھیں مچھلی نے نگل لیا تھا۔ اس کے پیٹ میں انہوں نے اللہ تعالی کو پکارا ان کی پکار سنی گئی اور انہیں غم سے نجات مل گئی۔ بے شک اللہ تعالی کو پکارنے والوں کو غم سے نجات مل ہی جاتی ہے۔
۷۔ یاجوج ماجوج
یاجوج ماجوج کا ذکر سورہ کہف میں ہوچکا ہے یہاں ان کا دوبارہ ذکر آیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ قیامت کے قریب یاجوج ماجوج کھول دیا جائے گا اور وہ ہر بلندی سے اتر رہے ہوں گے۔
۸۔ اصنام دوزخ کا ایندھن
مشرکین اور ان کے اصنام قیامت کے دن دوزخ کا ایندھن بنیں گے اور کوئی بھی کسی کے کام نہیں آسکے گا۔
۹۔ آہ و زاری کی دعا
انبیاء متقدمین کے قصے بیان کرنے کے بعد بتایا گیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دین اور دنیا میں سارے جہانوں کے لئے رحمت ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا پیغام انسانوں تک پہنچا دیا۔ مگر جب ہر قسم کے دلائل پیش کرنے کے بعد بھی لوگ نہ سمجھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے دعا کی:
“اے میرے پروردگار حق کے ساتھ فیصلہ کردے اور ہمارا پروردگار بڑا مہربان ہے اسی سے ان باتوں میں جو تم بیان کرتے ہو مدد مانگی جاتی ہے۔”
اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول فرمائی۔ اور غزوہ بدر کے موقع پر مشرکین پر اللہ تعالی کا عذاب نازل ہو کر رہا۔