Surah Maryam Tafseer In Urdu | سورة مريم تفسیر _ khulasa tafseer Quran

سورہ مریم ترتیب نمبر 19 نزولی نمبر 44

Surah Maryam Tafseer In Urdu

سورہ مریم مکی سورت ہے اور اس میں 98 آیات اور 6 رکوع ہیں۔

وجہ تسمیہ

کیونکہ اس سورت میں حضرت مریم کا قصہ مفصل بیان ہوا ہے اس لیے اس سورت کا نام سورہ مریم رکھا گیا۔

توحید بعث اور جزا

دوسری مکی سورتوں کی طرح سورہ مریم میں بھی اللہ کے وجود توحید اور بعث وجزاسے بحث کی گئی ہے اس سورت میں اللہ تعالی نے مختلف انبیاء کرام علیہم السلام کے قصے ذکر فرمائے ہیں۔

حضرت زکریا کا قصہ

سب سے پہلے حضرت زکریا علیہ سلام کا قصہ بیان ہوا ہے جو بوڑھے ہو چکے تھے ہڈیاں کمزور پڑ گئی تھیں۔ بال سفید ہوگئے تھے اہلیہ بوڑھی بھی تھی اور بانجھ بھی۔ حضرت زکریا علیہ سلام کی عمر 120 سال اور اہلیہ کی عمر98 سال ہوگئی تھی. بظاہر اب اولاد ہونا ممکن نظر نہیں آتا تھا لیکن پھر بھی اللہ کے سامنے ہاتھ اٹھا دیئے۔

بیٹا مانگنے سے پہلے

بیٹا مانگنے سے پہلے بارگاہ رب العالمین میں تین مور عرض کیے:
۱۔ پہلا یہ کہ میں بہت کمزور ہوں۔
۲۔ دوسرا یہ کہ مایوس نہیں ہوں کیوں کہ آپ نے کبھی بھی میری دعا ردنہیں فرمائی۔
۳۔ تیسرا یہ کہ اس دعا سے میرا مقصود دین کی منفعت ہے۔ اس کے بعد صراحتاً اپنی دینی خلافت کے لئے اللہ سے بیٹا مانگا۔

ایسا بیٹا عطا فرما

لیکن ساتھ ہی یہ درخواست بھی کی کہ ایسا بیٹا عطا فرمانا جس سے تو بھی خوش ہواور تیرے بندے بھی خوش ہوں۔

حضرت یحییٰ علیہ السلام

اللہ تعالی نے یہ دعا قبول فرمائی اور انہیں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی صورت میں انتہائی صالح اور عابد و زاہد بیٹا عطا فرمایا جسے نبوت سے سرفراز فرمادیا۔

حضرت عیسی علیہ السلام کا قصہ

حضرت یحیی علیہ السلام کی ولادت کا قصہ بیان کرنے کے بعد اس سے بھی زیادہ عجیب قصہ بیان کیا گیا ہے اور یہ سیدنا مسیح علیہ السلام کی ولادت کا قصہ ہے۔

حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت کا عجیب قصہ

بے شک حضرت یحیی علیہ السلام کی ولادت عجیب طریقے سے ہوئی تھی کیونکہ ان کے والدین توالدوتناسل کی عمر سے گزر چکے تھے۔
لیکن حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت بغیر باپ کے ہوئی اور ان کی والدہ باکرہ تھیں۔ یہاں سورہ مریم میں اللہ تعالی نے تفصیل سے بتایا ہے کہ یہ عجیب و غریب واقعہ کیسے پیش آیا۔
۱۔ کیسے مریم علیہ السلام اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر عبادت کے لیے بیت المقدس کے مشرقی گوشے میں چلی گئیں۔
۲۔ کیسے جبرائیل علیہ سلام ان کے پاس آئے انہوں نے گریبان میں پھونکا اور انھیں حمل ٹھہر گیا۔
۳۔ کیسے ان پر حضرت حزن و ملال کی شدید کیفیت طاری ہوئی۔
۴۔ ولادت کے بعد بچے کو اٹھائے ہوئے جب قوم کے پاس آئیں تو یہودیوں کی زبانیں کھل گئی اور وہ بھانت بھانت کی بولیاں بولنے لگے۔
۵۔ حضرت مریم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے بیٹے کی طرف اشارہ کیا تو ماں کی گود میں لیٹا ہوا بیٹا بولنے لگا۔

انی عبداللہ

اور اس کی زبان سے سب سے پہلا کلمہ جو نکلا وہ یہ تھا “انی عبداللہ” یقینا میں اللہ کا بندہ ہوں۔ دنیا ئےرنگ و بو میں قدم رکھنے کے بعد زندگی کے اس موڑ پر جب کہ ابھی آپ بولنے کی عمر تک نہیں پہنچے تھے۔

معجزانہ انداز میں والدہ کی پاکدامنی

معجزانہ انداز میں والدہ کی پاکدامنی بتانے کے لئے بولے بھی تو آپ کی زبان سے پہلا کلمہ ہی ایسا نکلا۔ جو آپ کے بارے میں غلط قسم کے عیسائیوں کی کھڑی کی گئی شرکیہ عمارت کو دھڑام سے گرانے کے لیے کافی ہے۔

چھ اعزازات

۱۔ پہلا یہ کہ میں بندہ ہوں نہ رب ہوں نہ رب کا بیٹا ہوں۔
۲۔ دوسرا یہ کہ مجھے وحی اور نبوت عطا کی گئی ہے۔
۳۔ تیسرا یے اللہ نے مجھے مبارک بنایا ہے میرا وجود لوگوں کے لئے برکت اور رحمت کا باعث ہے میں خیر کامعلم اور امت کے لیے نافع ہوں۔
۴۔ چوتھا یہ کہ مجھے دوسرے انبیاء کی طرح شرعی امور اور عبادات کا مکلف بنایا گیا ہے ان میں سے نماز اور زکوۃ کا آپ نے خاص طور پر ذکر فرمایا جو کہ ان دونوں عبادات کی اہمیت اور عظمت کی دلیل ہے۔
۵۔ پانچواں یہ کہ میں اپنی والدہ کا فرمابردار اور عزیز و اقارب کا خدمت گار ہوں میری طبیعت میں توازن ہے۔ کبروغرور نہیں ہے۔
۶۔ چھٹا یہ کہ مجھے دنیا اور آخرت میں امن اور سلامتی کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔

اعجازی شان لی ہوئی ولادت

حضرت عیسی علیہ السلام کی اعجازی شان لی ہوئی ولادت یہودونصاری کے درمیان اختلاف کا باعث بن گئی:
۱۔ عیسائیوں نے انہیں ابن اللہ یعنی اللہ کا بیٹا قرار دیا۔
۲۔ تو یہودیوں نے معاذ اللہ ابن زنا کہنے میں کوئی شرم محسوس نہ کی۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قصہ

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت اور ان کے بارے میں اہل کتاب کا اختلاف بیان کرنے کے بعد سورہ مریم منتقل ہو جاتی ہے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے قصہ کی طرف۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مشرک باپ:

جو کہ مشرک باپ کے ساتھ پیش آیا تاکہ عقیدہ شرک میں جھوٹ کبروغرور جہل و عناد اور ضلالت و حماقت پائی جاتی ہے۔ اس کی ایک جھلک دکھائی جائے۔

حقیقی داعی کا سراپا

یوںہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اخلاق و اوصاف خاص طور پر ان کا حلم اور بردباری حکمت اور دردمندی بھی نمایاں کرنا مقصود ہے تاکہ داعیان حق کے سامنے ایک حقیقی داعی کا سراپا آجائے جسے وہ اپنے لیے نمونہ بنا سکیں۔

ہر قوم و ملت اپنی نسبت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف کرتی ہے

اسی طرح اس واقعہ سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ حق کی دعوت اور حق پر استقامت کی وجہ سے حضرت خلیل پر کیسے باران رحمت نازل ہوئی۔ ان کی نسل میں ایک بڑی امت پیدا ہوئی۔ ان کی اولاد میں انبیاء، صلحاء اور بالخصوص حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے اور یہ بات بڑی عجیب ہے کہ دنیا کی ہر قوم اور ہر ملت ان کی طرف اپنی نسبت کرنے میں فخر محسوس کرتی ہے۔

والد آزر کی دھمکیاں:

سورہ مریم بتاتی ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے شعور کی آنکھیں کھولیں تو اپنے والد کو بت پرستی میں مبتلا پایا۔ جب آپ کو نبوت سے سرفراز کیا گیا تو آپ نے دعوت توحید و اصلاح کا آغاز اپنے گھر سے کیا۔ اور اپنے والد کو نرمی اور محبت سے سمجھانے کی کوشش کی۔ باوجود باپ کے مشرک ہونے کے آپ نے اپنی گفتگو میں ادب کا پہلو ملحوظ رکھا لیکن آپ کا والد آزر دھمکیوں پر اتر آیا اور کہنے لگا:
اگر تم بتوں کو برا بھلا کہنے سے باز نہ آئے تو میں تمہیں سنگسار کروں گا اور تم مجھے ایک طویل زمانے تک چھوڑ دو۔

عراق سے شام کی طرف ہجرت

جب مسلسل دعوت کے باوجود نہ آزر راہ راست پر آیا اور نہ ہی قوم کی سمجھ میں آپ کی دعوت آئی تو آپ محض اللہ کی رضا کی خاطر عراق سے شام ہجرت فرما گئے۔ اللہ کے لیے قوم اور خاندان کو چھوڑنے کا صلہ اللہ نے یہ دیا کہ حضرت اسماعیل حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہم السلام کی صورت میں ان سے کہیں بہتر بیٹے اور مونس و غمخوار عطا فرما دیے۔

سورۃ الرعد – Tafseer e Quran – تفسیر قرآن | surah Raad

 

انبیاء کے مختلف جانشین

اس کے بعد سورہ مریم حضرت موسی اور حضرت ہارون حضرت اسماعیل اور حضرت ادریس علیہم السلام کا تذکرہ کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ انبیاء کے جانشین ایسے لوگ ہوئے جنہوں نے نمازیں ضائع کیں اور خواہشات اور شہوات کی بندگی کا راستہ اختیار کر لیا۔

بعث و جزا کا انکار:

اس کے بعد بتایا گیا ہے کہ مشرکین بعث و جزا کا انکار کرتے ہیں انہیں جہنم کے اردگرد ضرور جمع کیا جائے گا۔

سورت کا اختتام

سورۃ کے اختتام پر بتایا گیا ہے کہ مومنوں کے لئے اللہ تعالی دلوں میں محبت پیدا کر دے گا اور موجودہ مجرموں کو پہلے مجرموں کی طرح ہلاک کر دیا جائے گا۔

سورۃ انعام – Tafseer e Quran – تفسیر قرآن | Khulasa Quran-Surah A-A’anam

فنا فی اللہ:

جو لوگ اللہ تعالی کی مرضیات کے سامنے اپنی خواہشات کو فنا کر دیتے ہیں اور خالص اسی کے ہو کر رہ جاتے ہیں ان کی محبت انسانوں کے قلوب میں پیدا کردی جاتی ہے جو کہ حقیقت میں نتیجہ ہوتی ہے خود باری تعالی کی محبت کا۔

اللہ جب اپنے کسی بندہ سے محبت کرتا ہے:

جیسا کہ صحیحین اور مسند احمد میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:
“اللہ تعالی جب اپنے کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو:
۱۔ جبریل علیہ السلام کو بلا کر اطلاع دیتا ہے کہ میں اپنے فلاں بندہ سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو جبرئیل علیہ السلام اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔
۲۔ پھر آسمانوں میں اعلان کر دیتا ہے کہ اللہ فلاں بندہ سے محبت کرتا ہے۔ تم بھی اس سے محبت کرو۔ چنانچہ آسمانوں والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔
۳۔ پھر زمین والوں کے دلوں میں بھی اس کی قبولیت اور محبت رکھ دی جاتی ہے۔

جب اللہ کسی بندے سے ناراض ہوتا ہے:

اس کے برعکس جب اللہ تعالی کسی بندے سے ناراض ہوتے ہیں تو:
۱۔ اس کی اطلاع جبریل علیہ السلام کو دیتے ہیں جبرئیل علیہ السلام اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔
۲۔ پھر سارے آسمان والوں کو اس کی اطلاع دیتا ہے۔ چنانچہ وہ سب اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔
۳۔ پھر اس نفرت کا اثر زمین پر بھی ظاہر ہوتا ہے اور زمین والے بھی اس سے نفرت شروع کر دیتے ہیں۔

1>سورت مریم کا ترجمہ
2>سورہ مریم مکمل
3>سورہ مریم کی فضیلت
4>سورہ مریم آیت 65 کی تفسیر
5>کھیعص کی تفسیر
6>سورۃ مریم کا شان نزول

سورہ مریم pdf download

سورہ مریم آیت 3

Leave a Comment