سورۃ النحل (ترتیب نمبر 16 نزولی نمبر 70)
سورۃ النحل مکی سورت ہے اور اس میں 128 آیات اور 16 رکوع ہیں۔
وجہ تسمیہ:
نحل شہد کی مکھی کو کہتے ہیں کیونکہ اس سورت میں شہد کی مکھی کا ذکر آیا ہے اس لیے اس کو سورہ نحل کہتے ہیں۔
شہد کی مکھی:
شہد کی مکھی بھی عام مکھی جیسی ایک مکھی ہے لیکن وہ حکم الٰہی سے ایسے حیرت انگیز کام کرتی ہے جن کے کرنے سے انسانی عقل عاجز ہے۔
۱۔ خواہ چھتہ بنانے کا عمل ہو۔
۲۔ یا آپس میں مختلف ذمہ داریوں کی تقسیم،
۳۔ یا دوردراز واقع درختوں، باغات اور فصلوں سے قطرہ قطرہ شہد کا حصول۔
ہر عمل بڑا ہی عجیب
ان کا ہر عمل بڑا ہی عجیب ہوتا ہے۔ ان کے بنائے ہوئے چھتے میں 20 سے 30 ہزار تک خانے ہوتے ہیں یہ خانے مسدس ہوتے ہیں اور آج کے کسی جدید ترین آلہ سے اگر ان کی پیمائش کی جائے تو ان میں بال برابر بھی فرق نہیں ہوگا۔
شہد کا چھتہ:
۱۔ پھر چھتے میں شہد جمع کرنے کا گودام۔
۲۔ بچے جننے کے لیے مینٹرنٹی ہوم۔
۳۔ اور فضلہ کے سٹور سب الگ الگ ہوتے ہیں۔
۴۔ ہزاروں مکھیوں پر ایک ملکہ حکمرانی کرتی ہے اس چھوٹی سی مملکت میں اسی کا سکہ چلتا ہے۔ اسی کے حکم سے ڈیوٹی کی تقسیم ہوتی ہے۔
۵۔ چھتے پر کام کرنے والی مکھیوں میں سے بعض دربانی کے فرائض انجام دیتی ہیں۔
۶۔ بعض انڈوں کی حفاظت کرتی ہیں۔
۷۔ بعض نابالغ بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔
۸۔ بعض انجینئرنگ اور چھتے کی تراش خراش اور تعمیر میں لگی رہتی ہیں۔
۹۔ جب کسی مکھی کو تلاش و جستجو کے دوران کسی جگہ پر شہد کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے تو وہ آپس آکر ایک خاص قسم کے رقص کے ذریعے دوسری ساتھیوں کو منزل تک پہنچنے کے لیے نشاندہی کرتی ہے۔
۱۰۔ یہ احتیاط ضرور کرتی ہے کہ جس پھول کو وہ نچوڑچکی ہوتی ہے اس پر ایک خاص قسم کی نشانی چھوڑ جاتی ہے تاکہ بعد میں آنے والی کارکن کا وقت ضائع نہ ہو اور اسے خجل خراب نہ ہونا پڑے۔
۱۱۔ اگر کوئی مکھی غلطی سے گندگی پر بیٹھ جائے یا کوئی زہریلا مواد لے کر آئے تو چیکنگ پر مامور عملہ اسے باہر ہی روک لیتا ہے اور اسے جرم کی سزا کے طور پر قتل کردیا جاتا ہے۔
مکھی ہی سے عبرت:
ای کاش!انسان مکھی ہی سے عبرت حاصل کرے اور خوراک یا دوا کے نام پر زہر کھلانے والوں کو عبرت کا نمونہ بنا دے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
” مکھی یہ سارے کام ہمارے حکم سے کرتی ہے۔”
اور فرمایا یہ :
“کہ بے شک سوچنے والوں کے لئے اس میں نشانی ہے”
غیرمتعصب انسان:
اگر کوئی غیر متعصب انسان شہد کی مکھی کی زندگی پر ہی غور و فکر کرلے تو اللہ کے وجود اور اس کی قدرت اور حکمت کو تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
سورہ نحل کو “سورہ نعم” بھی کہتے ہیں کیونکہ اس میں کثرت کے ساتھ اللہ کی نعمتیں مذکور ہیں۔
قرب قیامت
سورت کی ابتداء سے مطالعہ کیا جائے تو پہلے قرب قیامت کا ذکر ہے۔
وحی کا اثبات:
پھر وحی کو ثابت کیا گیا ہے جس کا مشرک انکارکرتے ہیں۔
اللہ کی نعمتوں کا بیان:
پھر اللہ کی نعمتوں کے بیان کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے:
۱۔ کہ اس نے زمین کو فرش۔
۲۔ اور آسمان کو چھت بنایا،
۳ انسان کو نطفہ سے پیدا کیا،
۴۔ چوپائے پیدا کیے جن میں مختلف منافع بھی ہیں اور وہ اپنے مالک کے لیے فخر و جمال کا باعث بھی ہوتے ہیں۔
۵۔ گھوڑے خچر اور گدھے پیدا کئے جو بار برداری کے کام بھی آتے ہیں اور ان میں رونق اور زینت بھی ہوتی ہے۔
۶۔ بارش وھی برساتا ہے۔
۷۔ پھر اس بارش سے زیتون کھجور انگوراور بہت سارے میوہ جات اور غلے وہی پیدا کرتا ہے۔
۸۔ رات اور دن ، سورج اور چاند کو اسی نے انسانوں کی خدمت میں لگا رکھا ہے۔
۹۔ دریاؤں سے تازہ گوشت اورزیور وہی مہیا کرتا ہے۔
۱۰۔ سمندر میں جہاز اور کشتیاں اسی کے حکم سے رواں دواں ہیں۔
یہ اور ان جیسی دوسری نعمتوں کو ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالی بجا طور پر فرماتے ہیں:
” اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کر سکتے ہو بے شک اللہ بخشنے والا انتہائی مہربان ہے۔
داخلی نعمتیں:
جب انسان اللہ کی نعمتوں کو شمار نہیں کر سکتا تو ان کا شکر کیسے ادا کر سکتا ہے۔ انسانی جسم اور اس کے مختلف اجزاء ہی کو لے لیجئے۔
۱۔ اگر اس میں کوئی خرابی پیدا ہو جائے تو زندگی کا مزہ ختم ہو کر رہ جاتا ہے۔ انسان تمنا کرتا ہے کہ اگر دنیا کا سارا مال و متاع بھی خرچ کر دے تو سودا سستا ہے۔
۲۔ اگر معدہ میں زخم ہو جائے۔
۳۔ یا پیشاب رک جائے۔
۴۔ یا سوائے ہضم کا عارضہ مستقل طور پر لاحق ہوجائے تو نہ کھانے میں مزہ آتا ہے نہ پینے میں۔
۵۔ اگر گردہ یا جگر خراب ہو جائے۔
۶۔ یا شریانیں تنگ ہوجائیں۔
۷۔ یا خون کی پیداوار میں رکاوٹ ہو جائے تو ایسی تکلیف ہوتی ہےکہ انسان موت کی آرزو کرنے لگتا ہے۔
غافل انسان کو کیا خبر:
غافل انسان کو کیا خبر کے اس کے جسم کا نظام کیسے چلایا جا رہا ہے۔ یہ اگر صرف داخلی اور بدنی نعمتوں پر ایک ہی سرسری نظر ڈالیں تو دنگ رہ جاتا ہے اور یہ اقرارکرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ واقعی اس کی نعمتوں کو شمار نہیں کیا جاسکتا خارجی نعمتوں کا تو ذکر ہی کیا ہے۔
اس سورت میں وہ جامع ترین آیت ہے جس کے بارے میں:
۱۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی یہ آیت خیر و شر سب سے زیادہ جامع ہے۔
۲۔ یہ وہ آیت ہے جسے سن کر ولید بن مغیرہ دشمن اسلام بھی تعریف کرنے پر مجبور ہو گیا تھا۔
۳۔ اس کی جامعیت ہی کی وجہ سے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃاللہ علیہ کے زمانے سے اسے ہر خطیب خطبہ جمعہ میں پڑھتا ہے۔
۴۔ یہ سورہ نحل کی آیت نمبر 90 ہے۔ اس آیت میں تین باتوں کا حکم دیا گیا ہے ہے منع کیا گیا ہے:
۱۔ عدل۔ ۲۔ احسان ۔ ۳۔ اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیا گیا ہے۔
۵۔ اس آیت میں تین باتوں سے منع کیا گیا ہے:
۱۔ فحشاء یعنی ہرقبیح قول و عمل۔
۲۔ منکر(ہر وہ عمل جس سے شریعت نے منع کیا ہے)
۳۔ اور بغی (حد سے تجاوز کرنا جیسے تکبر ظلم اور حسد وغیرہ ) سے منع کیا گیا ہے۔
عدل: عدل کا حکم عام ہے:
۱۔ احکام اور معاملات میں بھی عدل ضروری ہے۔
۲۔ فرائض اور واجبات میں بھی۔
۳۔ اولاد کے ساتھ بھی۔
۴۔ دوستوں اور دشمنوں کے ساتھ بھی۔
۵۔ اپنے پرائے کے ساتھ بھی۔
۶۔ بیویوں، خادموں، اور ملازموں کے ساتھ بھی۔
احسان:ہر اچھا عمل احسان ہے
۱۔ احسان کا تعلق اللہ کے ساتھ بھی ہے۔
۲۔ جماعت اور خاندان کے ساتھ بھی۔
۳۔ یہاں تک کہ حیوانوں کے ساتھ بھی احسان کا حکم ہے
قرابت داروں کے ساتھ تعاون:
یوں تو ہر مستحق کی مدد کرنی چاہئے لیکن قرابت داروں کے ساتھ تعاون کرنے کا دہرا اجر ملتا ہے۔
فحشاء:
ہر ایسا عمل جس کی قباحت بالکل واضح ہو وہ فحشاء ہے۔ جیسے زنا، لواطت ، شراب اور جوا وغیرہ۔
منکر
منکر ایسے اعمال جو شریعت کی نظر میں قبیح ہیں اور جن سے طبع سلیم نفرت کرتی ہے۔
بغی:
یہ ہے کہ انسانوں کی عزت و حرمت اور ان کے اموال اور جانوں پر زیادتی کی جائے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعریف:
سورۃ کے اختتام پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعریف کی گئی ہے کہ وہ زندگی بھر توحید خالص پر جمے رہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو:
۱۔ ان کی ملت کے اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔
۲۔ اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ اللہ کی طرف بلائیں۔
۳۔ اور اس راہ میں پیش آنے والے مصائب پر صبر کریں۔
فضول مطالبے:
سورۃ کی ابتدائی آیت ان لوگوں کے جواب میں نازل ہوئی تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جلد عزاب کا مطالبہ کرتے تھے۔ ایسے فضول مطالبوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت کا مکدر ہونا یقینی تھا۔
ابتدا اور انتہا میں مناسبت
جبکہ آخری آیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صبر کرنے اور تنگ دل نہ ہونے کی تلقین کی گئی ہے لہذا ابتدا اور انتہا میں مناسبت بالکل واضح ہے۔