پارہ نمبر 12
سورہ ہود (ترتیبی نمبر 11 نزولی نمبر 52)
مکی سورت: یہ مکی سورت ہے۔
آیات: اس میں ایک 123آیات اور 10رکوع ہیں۔
وجہ تسمیہ: کیونکہ اس صورت میں حضرت ہود علیہ السلام اور انکی قوم کا تذکرہ ہے اس لیے اس سورت کا نام سورۀ ہود ہے۔
قرآن کی عظمت:
اس سورت کی ابتدا میں قرآن کریم کی عظمت شان کو بیان کیا گیا ہے کہ یہ اپنی آیات معانی اور مضامین کے اعتبار سے مکمل کتاب ہے اور اس میں کسی بھی اعتبار سے فساد اور خلل نہیں آ سکتا اور نہ اس میں کوئی تعارض یا تناقضپایا جاتا ہے۔
قرآن کے محکم ہونے کی بڑی وجہ:
اس کے محکم ہونے کی بڑی وجہ یہی ہے کہ اس کی تفصیل اور تشریح اس ذات نے کی ہے جو حکیم بھی ہے اور خبیر بھی ہے۔ اس کا ہر حکم کسی نہ کسی کی حکمت پر مبنی ہے اور اسے انسان کے ماضی حال مستقبل اس کی نفسیات کمزوریوں اور ضروریات کا بخوبی علم ہے۔
surah taubah benefits | What does Surah taubah talk about?|سورہ توبہ کا تعارف
دلائل توحید:
کتاب اللہ کی عظمت بیان کرنے کے بعد توحید کی دعوت ہے جو عقیدہ اور یقین کی بنیاد ہے۔ دعوت توحید کے بعد دلا ئل توحید کا بیان ہے جو کہ پوری کائنات میں پھیلے ہوئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ:
۱۔ ساری مخلوق کو رزق دینے والا اللہ ہی ہے خواہ وہ مخلوق انسان ہو یا جنات، چوپائے ہوں یا پرندے،پانی میں رہنے والی مچھلیاں ہوں یا زمین پر رینگنے والے کیڑے مکوڑے۔
۲۔ آسمان اور زمین کو اللہ نے پیدا کیا ہے۔
ضد اورعناد کی پٹی:
لیکن جو لوگ ان دلائل میں غور و فکر نہیں کرتے اور جنہوں نے اپنی آنکھوں پر ضد اور عناد کی پٹی باندھ رکھی ہے وہ توحید کابھی انکار کرتے ہیں اور قرآن کو اللہ کا کلام تسلیم کرنے سے بھی انکار کرتے ہیں.
منکرین کو تین بار چیلنج
منکرین کو تین بار چیلنج دیا گیا تھا’
۱۔ پہلی بار پورے قرآن کی مثال آنے۔
۲۔ دوسری بار قرآن جیسی دس سورتیں لانے۔
۳۔ اور تیسری بار سورہ بقرہ میں قرآن کریم جیسی صرف ایک صورت بنا کر لانے کا چیلنج دیا گیا تھا۔
لیکن تینوں بار وہ اس چیلنج کو قبول کرنے سے عاجز رہے۔
انسانوں کے دو گروہ:
پہلا گروہ:
وہ ہے جن کی زندگی اورجہدوعمل کا ہدف صرف دنیا ہے۔ وہ ہر وقت اسی زندگی کو زیادہ سے زیادہ آرام دہ بنانے کی فکر میں لگے رہتے ہیں اور کبھی بھولے سے بھی انہیں آخرت یاد نہیں آتی۔
دوسرا گروہ :
دوسرا توفیق یافتہ گروہ وہ ہے جو دنیا کے لیے بھی تگ ودو کرتا ہے مگر اس کی کوششوں کا محور آخرت ہے وہ اخروی زندگی کو سامنے رکھ کر دنیا کی زندگی گزارتا ہے۔
پہلے گروہ کی مثال:
پہلے گروہ کی مثال اندھوں اور بہروں جیسی ہے:
دوسرے گروہ کی مثال
دوسرے گروہ کی مثال بینائی اور شنوائی کی نعمت سے سرفراز لوگوں جیسی ہے۔
قرآن کا ایک عجیب انداز:
قرآن کریم کی ایک عادت یہ بھی ہے کہ دلیل کے ذریعہ کفار اور مشرکین کے نظریات کی تردید کے بعد گزشتہ اقوام اور انبیاء کے واقعات اور قصص بیان کرتا ہے۔ ایسا کرنے سے دلائل کی تاکید بھی ہو جاتی ہے اور کلام میں تفنن اور تنوع بھی پیدا ہو جاتا ہے۔
تکوینی آیات
انسان کی طبیعت تنوع پسند ہے اللہ تعالی نے۔ اللہ تعالی نے جیسے تکوینی آیات یعنی اس حسی اور مادی جہان میں تنوع کا لحاظ رکھا ہے۔
تشریعی آیات:
یوں ہی تشریعی آیات یعنی قرآن میں بھی اس کا لحاظ رکھا ہے۔
حسی جہان
آپ حسی جہان میں دیکھیں تو لمحہ بہ لمحہ مناظر موسم اور اوقات بدلتے جاتے ہیں۔ کہیں پھول کہیں کانٹے کہیں بلند و بالا پہاڑ کہیں ہموار میدان کہیں دریاؤں کی سرکش موجیں کہیں اڑتی ہوئی خاک پھر کبھی سردی کبھی گرمی کبھی بہار کبھی خزاں کبھی صبح کبھی دوپہر اور کبھی شام۔
تشریعی جہان:
یوںہی اس تشریعی جہان میں مضامین بدلتے رہتے ہیں احکام کے ساتھ اخبار دلائل کے ساتھ قصص واقعات،مواعظ کے ساتھ جنت اور جہنم کے مناظر بشارت کے ساتھ انزار اور وعدوں کے ساتھ وعیدوں کا بیان ساتھ ساتھ چلتا رہتا ہے اور کلام کا ایک اسلوب سے دوسرے اسلوب کی طرف ایک منظر سے دوسرے منظر کی طرف ایک قصہ سے دوسرے قصہ کی طرف اور ایک مضمون سے دوسرے مضمون کی طرف منتقل ہوتا چلا جاتا ہے اور پڑھنے سننے والا اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتا۔
جادو چیک کرنے کا طریقہ | Mareez Ke Bazo Se Jadu Maloom Kare
وحی، نبوت اور قرآن:
سورہ ہود میں بھی قرآن کی خاص انداز کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں :
۱۔ پہلے قرآن کی صداقت اور توحید و رسالت کی حقانیت کے دلائل ذکر کیے گئے ہیں۔
۲۔ اس کے بعد حضرت نوح، حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت لوط، حضرت شعیب اور حضرت موسی اور ہارون علیہم السلام کے قصے بیان کئے گئےہیں۔
مشرکین مکہ جانتے پہچانتے تھے
مشرکین مکہ بخوبی جانتے تھے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم امی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ قرات جانتے ہیں نہ ہی کتابت سے آشنا ہیں اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کی شاگردی اختیار کی۔ لیکن اس کے باوجود اتنی صحت باریکی اور کامل درجہ کی درستگی کے ساتھ ان واقعات کو بیان کرنا وحی کے بغیر کیسے ممکن تھا۔ خود قرآن نے اس نکتے کی طرف متوجہ کرنے کے لئے انبیاء اور مرسلین کے واقعات بیان کرنے کے بعد عام طور پر وحی اور نبوت کا تذکرہ کیا ہے۔
Muslim Names for Boys and Girls and Meaning | Pakistani Islamic Names with Urdu Meaning
غیب کی خبریں
“یہ( حالات و واقعات) غیب کی خبروں میں سے ہیں۔ جو ہم تمہاری طرف بھیجتے ہیں۔ اس سے پہلے نہ تو تم ان کو جانتے تھے اور نہ ہی تمہاری قوم جانتی تھی۔ پس صبرکرو پرہیزگاروں ہی کا انجام اچھا ہوتا ہے۔”
عبرتیں اور نصیحتیں:
یوںہی حضرت موسی اور حضرت ہارون علیہماالسلام کا قصہ بیان کرنے کے بعد ارشاد ہوتا ہے:
“یہ( پرانی) بستیوں کے تھوڑے سے حالات ہیں جو ہم تم سے بیان کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض بستیاں تو باقی ہیں اور بعض تہس نہس ہو گئیں۔
تسلی اور ثابت قدمی :
دوسری طرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور مخلص اہل ایمان کے لیے تسلی اور ثابت قدمی کا سامان اور سبق ہے۔
استقامت کا حکم
اسی لیے یہ واقعات بیان کرتے ہوئے آپ علیہ السلام کو استقامت کا حکم دیا گیا ہے جو کہ حقیقت میں پوری امت کو حکم ہے۔ استقامت ایک ایسا حکم ہے جس کا تعلق عقائد اقوال اور اخلاق سب ہی کے ساتھ ہے۔ استقامت کوئی آسان چیز نہیں بلکہ انتہائی مشکل صفت ہے جو اللہ کے مخصوص بندوں ہی کو حاصل ہوتی ہے۔
استقامت کا مطلب:
استقامت کا مطلب یہ ہے کہ پوری زندگی ان تعلیمات کے مطابق گزاری جے جن کے مطابق گزارنے کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے۔
اس سے زیادہ سخت آیت کوئی نہیں:
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس آیت سے زیادہ سخت آیت کوئی نازل نہیں ہوئی۔
بڑھاپا تیزی سے آرہا ہے
صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک موقع پر ریش مبارک میں چند سفید بال دیکھتے ہوئے عرض کیا:
“یارسول اللہ آپ پر بڑھاپا بہت تیزی سے آرہا ہے۔”
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“مجھے ھود اور اس جیسی دوسری سورتوں نے بوڑھا کر دیا ہے۔”
علماء کہتے ہیں کہ آپ کا اشارہ سورہ ہود کی اسی آیت کی طرف تھا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو استقامت کا حکم دیا گیا ہے۔
استقامت عین کرامت:
علماء ربانیین نے استقامت کو عین کرامت قرار دیا ہے اور صحیح بات تو یہ ہے کہ استقامت سے بڑی کوئی کرامت نہیں ہے۔
نافرمان بستیوں کی پکڑ:
یہ استقامت کی اہمیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور اس کی اللہ سے دعا کرتے ہوئے حضرت موسی علیہ السلام کے واقعہ میں بھی تدبر ضروری ہے جس میں فرعون کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا گیا:
“اور تمہارا پروردگار جب نافرمان بستیوں کو پکڑا کرتا ہے تو اس کی پکڑ اسی طرح کی ہوتی ہے بے شک دکھ دینے والی اور سخت۔ ان قصوں میں اس شخص کے لیے عبرت ہے جو عذاب آخرت سے ڈرتا ہے۔”
سرکش قوموں کی گرفت:
گویا یہ بتایا گیا ہے کہ جس اللہ نے کل کی نافرمان بستیوں پر عذاب نازل کیا تھا وہ آج بھی سرکش قوموں کو اپنی گرفت میں لے سکتا ہے۔
اللہ کا عذاب کب آتا ہے:
آیات کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ عام طور پر کسی قوم پر اللہ کا عذاب اس وقت نازل ہوتا ہے جب اس کے اندر دو خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں:
۱۔ پہلی خرابی یہ کہ ایسے درد مند اور ہوش مند لوگ نہیں رہتے جو انہیں فتنہ و فساد سے منع کریں۔
۲۔ دوسری خرابی یہ ہے کہ وہ قوم حد سے زیادہ عیش پرستی اور گناہوں میں مبتلا ہو جاتی ہے۔
تمہارے دل کو مضبوط کر دیا:
اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان کے لیے تسلی اور صبر و استقامت کے پہلو کو مذکورہ واقعات کے بعد اس سورت کی اختتامی آیات میں بیان کیا گیا ہے۔ آیت نمبر 120 میں ہے:
“(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم)انبیاء کے وہ سب حالات جو ہم تم سے بیان کرتے ہیں۔ ان کے ذریعے ہم تمہارے دل کو مضبوط رکھتے ہیں اور ان قصوں میں تمہارے پاس حق آگیا اور مومنوں کے لئے نصیحت اور عبرت ہے۔”