سورہ انعام (ترتیبی نمبر 6 اور نزولی نمبر 55)
Surah Al An’am khulasa
آیات: اس سورت میں ایک سو پینسٹھ آیات اوربیس رکوع ہیں۔
مکی سورت: یہ مکی سورت ہے ۔ مکی سورتوں میں عام طور پرتین بنیادی عقائد سے بحث کی جاتی ہے۔ یعنی:
توحید رسالت اور آخرت ۔
وجہ تسمیہ : چونکہ اس میں چوپاؤں کا ذکر آیا ہے۔ اس لیے اس سورت کو سورۀ انعام کہتے ہیں ۔
مشرکین کے غلط عقائد کی تردید :
اس سورت کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں مشرکین کے غلط عقائد کی تردید کے لئے اور تلقین دونوں اسلوب اختیار کیے گۓ ہیں۔
اسلوب تقریر:
اسلوب تقریر کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کی توحیداور قدرت وعظمت کے دلائل کو ایسے مسلم اصولوں کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے کہ ان کا انکار ایسا انسان کر ہی نہیں سکتا جسے اللہ تعالی نے قلب سلیم اور عقل صحیح سے نوازا ہو۔
توحید اور قدرت کے دعوے :
آپ اس سورہ کا مطالعہ فرمایئں تو آپ کو وقفےوقفے سے ایسی آیات ملیں گی جن میں :
۱: ارض و سما میں اللہ کے موجود ہونے
۲: بندوں پر اس کے غلبے
۳: اور ظاہر و باطن کا عالم ہونے کا یوں ذکر کیا گیا ہے
گویاان دعاوی کو مشرکین بھی تسلیم کرتے ہیں اوریہ دعوے ایسے ہرگز نہیں کہ ان کے ثبوت کے دلائل دیئے جائیں یا زیادہ مغزماری کی جائے بلکہ صاحب نظر انسان کا ئنات پر ایک نظر ڈالتا ہے تو وہ اللہ کے وجود اس کی عظمت و کبریایئ اور غلبے اور قدرت کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہتا۔ درج ذیل آیات میں کسی ملک کی جھلک دکھائی دیتی ہے درج ذیل آیات میں اسی اسلوب کی جھلک دکھائی دیتی ہے ۔
Surah Al-Ma’idah |سورۃ المائدہ اردو ترجمہ_Kholas e Quran_
آیت نمبر1:
آسمان اور زمین میں وہی ایک اللہ ہے۔ تمہاری پوشیدہ اور ظاہری باتیں سب جانتا ہے اور تم جو عمل کرتے ہو سب سے واقف ہے۔
آیت نمبر 2 :
اور وہی تو ہے جو رات کو نیند کی حالت میں تمہاری روح قبض کر لیتا ہے اور جو کچھ تم دن میں کرتے ہو اس کی خبر رکھتا ہے ۔
آیت نمبر 3:
اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے اور تم پر نگہبان مقرر کیے رکھتا ہے ۔
اسلوب تلقین (یقین):
اسلوب یقین کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالی اپنے رسول امی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے دلیل سکھاتا ہے ۔ جن کا منکرین کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا اور وہ شرمندگی اورسرافگندی پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ یہاں یہ اسلوب عام طور پر سوال و جواب کی شکل میں ہوتا ہے۔
پہلا سوال : آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے سوال کیجئے کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے یہ کس کا ہے؟
ظاہر ہے کہ دل سے تو مشرکین بھی تسلیم کرتے تھے کہ سب کچھ اللہ کی کا ہے۔
لیکن زبان سے اعتراف کرنے میں انہیں حجاب ہوتا تھا۔ اس لئے فرمایا کہ آپ خود ہی جواب دیجیے کہ:
جواب :
“سب کچھ اللہ ہی کا ہے”
دوسرا سوال :
ان سے پوچھو کے سب سے بڑھ کر کس کی شہادت ہے؟
کہہ دیجئے کہ :
جواب:
“اللہ ہی میرے درمیان اور تمہارے درمیان گواہ ہے”
منکرین کی عادت :
منکرین کی عادت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی دلا ئل و براہین ان کے سامنے پیش کرتے ہیں یہ ان سے اعراض کرتے ہیں اور جواب میں کٹ حجتی کے طور پر کہتے ہیں کہ اس نبی پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا؟
بعث وجزا:
توحید رسالت کے بعد بعث جزا کا ذکر ہے فرمایا گیا کہ :
“تمہیں اللہ قیامت کے دن ضرور جمع کرے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں ۔”
یہ تینوں مضامین سورہ انعام میں ادل بدل کرتلقین اور تقریر کے اسلوب سے چلتے جاتے ہیں یہاں تک کہ بات ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام تک جا پہنچتی ہے۔
شرک میں ڈوبی ہوئی دنیا میں روشن مینار”
اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ حضرت خلیل علیہ السلام شرک میں ڈوبی ہوئی دنیا میں روشن مینارتھے۔ انہوں نے جب تک سورج چاند ستاروں اور ہاتھوں سے بنائے گئے اصنام کو معبود تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور رب واحدکی کبریائی پر ایمان کا اعلان کیا تو انہیں سب سے پہلے اپنے والد ہی کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر انہوں نے اس مخالفت کی کوئی پرواہ نہ کی اور دعوت توحید کا سلسلہ جاری رکھا۔
اللہ کی ذات و صفات اور افعال کی معرفت:
وحی اور نبوت کے بعد دوبارہ ایسے دلا ئل ذکر کیے گئے ہیں جو خالق کے وجود اور اس کے علم قدرت اور حکمت کے کمال پر دلالت کرتے ہیں۔ ان دلا ئل سے اس طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ مقصود اصلی اللہ کی ذات و صفات اور اس کے افعال کی معرفت ہے۔ لیکن مکہ کے کفار ان دلائل میں تو غور و فکر نہیں کرتے تھے۔ البتہ مختلف قسم کے معجزات کا مطالبہ کرتے رہتے تھے کہ اگر ہمیں فلاں معجزہ دکھادیا جائے تو ہم ایمان قبول کر لیں گے حالانکہ ان کی یہ باتیں زبانی جمع خرچ اور دفع الوقتی کے سوا کچھ نہ تھیں۔
حقیقت یہ ہے کہ صاحب طلب معجزہ کا مطالبہ نہیں کرتا۔ وہ جدھر نظر اٹھاتا ہے اللہ کے وجود اور قدرت کی نشانیاں واضح طور پر دکھائی دیتی ہیں۔ اس کائنات پر کافر بھی نظر ڈالتا ہے اور مومن بھی نظر ڈالتا ہے لیکن دونوں کے نظر ڈالنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
کافر:
کافر دیکھتا ہے تو اسے پوری کائنات مادی اسباب میں جکڑی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
مومن :
لیکن جب ایک مسلمان دیکھتا ہے تو اسے ہر چیز اور ہر مرحلے میں قدرت کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔
مومن کی ایمانی نظر:
جب ایک مومن ایمانی نظر سے دیکھتا ہے اور غور و تدبر کرتا ہے تو بے ساختہ پکار اٹھتا ہے۔”سبحان اللہ”
نباتات کا خاص طور پر ذکر :
اس لیے یہاں زمین سے اگنے والی مختلف چیزوں اور پھلوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:
یہ چیزیں جب بھی پھلتی ہیں تو ان کے پھلوں پر اور جب بکتی ہیں تو ان کے پکنے پر نظر ڈالو۔
پارہ 8
حسی معجزہ:
ساتویں پارہ کے آخر میں مشرکین کا یہ مطالبہ ذکر کیا گیا تھا کہ اگر ہمیں کوئی حسی معجزہ دکھا دیا جائے تو ہم ایمان لے آئیں گے۔
معجزات طلب کرنے والے جھوٹے ہیں:
آٹھویں پارے میں بتایا گیا تھا کہ یہ جھوٹ بولتے ہیں اگر ان کو حسی معجزات بھی دکھائے جائیں یہاں تک کہ قبروں سے مردے زندہ ہو کر ان سے باتیں کریں تو یہ ایمان لانے والے نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی:
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی مخالفت استہزاء اور انکار سے پریشان نہ ہو ہر نبی کے ساتھ ان انسی اور جنی شیا طین نے ہمیشہ یہی رویہ اختیار کیا ہے۔
سب سے بڑا معجزہ قرآن:
اللہ تعالٰی نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم) کو متعدد معجزات سے نوازا ہے جن میں سب سے بڑا معجزہ قرآن ہے لہذا یہ اس معجزہ کو دیکھنے اور سننے کے باوجود انکار کرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم پریشان نہ ہوں کیونکہ زمین پر بسنے والے اکثر لوگوں کا یہی حال ہے کہ وہ ہدایت کو چھوڑتے ہیں اور گمراہی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ فرمایا :
“اگر (آپ صلی اللہ علیہ وسلم) اکثر لوگوں کی باتیں مانیں گے جو دنیا میں ہیں تو وہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم) کو اللہ کی راہ سے دور کر دیں گے۔”
مغربی جمہوریت رد کر دی جائے گی :
اس آیت کریمہ سے مغربی جمہوریت کی نفی ہوتی ہے کیونکہ مغربی جمہوریت میں اکثر کی راۓ کا اعتبارہے۔ خواہ وہ کتاب وسنت کے خلاف ہی کیوں نہ ہو جبکہ مسلمانوں کا یہ اجتماعی عقیدہ ہے کہ اگر پوری دنیا کے انسان کسی ایسی بات پر متفق ہو جائیں جو کتاب و سنت کے واضح حکم کے خلاف ہو تو ان کے اتفاق کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا اور اسے رد کردیا جائے گا۔
اہم مضامین:
(1)مومن کی مثال:
“مومن کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو زندہ ہے اور اسے ہم نے نورعطا کیا ہے۔”
کافر کی مثال:
“اورکافر کی مثال اس شخص جیسی ہے جو مردہ ہے اور تاریکیوں میں پھنسا ہوا ہے۔
(2) ایمان اور ہدایت:
ایمان اور ہدایت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہتا ہے اس سے نوازتا ہے۔
(3) اعمال کی جزا یا سزا:
ہدایت یافتہ اور گمراہ فرقوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا گیا کہ اللہ ان سب کو قیامت کے دن جمع کرے گا پھر ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق جزا یا سزا دے گا۔
مشرقین کی حماقتیں:
١۔ اللہ اور شرکا کا حصہ :
مستشرقین کی مختلف حماقتوں میں سے ایک حماقت یہ ذکر کی گئی ہے کہ وہ زمین سے حاصل ہونے والے غلے اور چپاؤں میں اللہ کا حصہ الگ کر لیتے تھے اور اپنے شرکاء کا حصہ الگ کر لیتے تھے۔ پھرجوان کے شرکا کا حصہ ہوتا تھا۔ اسے تو اللہ کے حصے میں نہیں ملنے دیتے تھے لیکن جو اللہ کا حصہ ہوتا تھا۔ وہ اگرشرکاء کے حصے میں مل جاتا تو اسے برا نہیں سمجھتے تھے۔
۲۔ بیٹیوں کا قتل
ان کی دوسری حماقت یہ تھی کہ وہ اپنی بیٹیوں کو فقر یا عارکی وجہ سے قتل کر دیتے تھے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عورت پر احسان:
عورت پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات میں سے ایک بڑا احسان یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان و عمل سے یہ سمجھایا کہ بیٹی کا وجود نہ تو باعث ننگ ہے اور نہ ہی فقروغربت میں اضافے کا سبب۔
چوپاؤں میں نام نہاد تقسیم:
مشرکین کی تیسری حماقت قرآن نے یہ بتائی کہ انہوں نے چوپاؤں کو مختلف قسموں میں تقسیم کر رکھا تھا۔
۱۔ بعض وہ تھے جو کا ہنوں اور مذہبی پیشواؤں کے لئے مخصوص تھے۔
۲۔ بعض وہ تھے کہ جن پر سوار ہونا اور ان سے کسی بھی طرح فائدہ اٹھانا جائز نہیں سمجھتے تھے۔
۳۔ اور بعض وہ تھے جنہیں ذبح کرتے وقت اللہ کی بجائے بتوں کے نام ذکر کرتے تھے۔
(4) مرد و عورت کے لیے الگ الگ حلال و حرام :
چوپاۓ کے پیٹ سے جو بچہ پیدا ہوتا تھا۔
۱۔ اگر وہ زندہ پیدا ہوتا تو اسے مردوں کے لیے حلال سمجھتے تھے مگرعورتو کے لئے حرام۔
۲۔ اور اگر وہ مردہ پیدا ہوتا تو اسے مرد اور عورت دونوں کے لیے حلال سمجھتے تھے۔
حلال و حرام کا اختیار:
مشرکین کی حماقتوں کے بعد نعمتیں یاد دلائی گیئں کہ:
۱۔ وہی اللہ ہے جس نے باغات زیتون اور انار جیسے مختلف پھل پیدا کیے ہیں۔
۲۔ وہی اللہ ہے جس نے باربرداری گوشت اور دودھ کے حصول کے لئے چھوٹے اور بڑے جانور پیدا کیے۔
ان جانوروں اور کھانے پینے کی دوسری اشیاء میں تحلیل و تحریم کا اختیار صرف اللہ کے پاس ہے وہ جس چیز کو چاہتا ہے حلال کرتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے کرتا ہے۔
(5) دس وصیتیں:
مشرکین کے عقائد کی تردید کے بعد اللہ تعالی نے ایسی دس والی تے بیان فرمائی ہیں جن پر ساری آسمانی شریعتیں متفق ہیں کیونکہ ان پر عمل کرنے سے انسانی سعادت کی حفاظت ہوتی ہے اور اسے دنیا و آخرت میں عزت کی زندگی حاصل ہوتی ہے جو اللہ تعا لٰی نسان کو دینا چاہتا۔
۱۔ پہلی وصیت یہ ہے کہ صرف اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔
۲۔ دوسری یہ کہ والدین کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے اور انہیں اپنی زبان و عمل سے تکلیف نہ دی جائے۔
۳۔ تیسری یہ کہ اولاد کو فقر کے ڈر سے یا ننگ و عار کے خوف سے قتل نہ کیا جائے۔
۴۔ چوتھی یہ کہ ہر قسم کے فواحش اور برائیوں سے بچا جائے خواہ وہ خفیہ ہںوں یا اعلانیہ۔
۵۔ پانچویں یہ کہ انسان کو ناحق قتل کرنا حرام ہے یہ بدترین گناہ ہے۔
۶۔ چھٹی یہ کہ یتییم کے مال میں نا جائز تصرف نہ رکھا جائے۔
۷۔ ساتویں یہ کہ ناپ تول کو پورا کیا جائے۔
۸۔ آٹھویں یہ کہ سارے انسانوں کے درمیان عدل کو ملحوظ رکھا جائے خواہ کوئی اپنا قریبی ہو یا دشمن۔
۹۔ نویں یہ کہ اللہ کے عہد کو پورا کیا جائے۔
۱۰۔ دسویں یہ کہ صراط مستقیم کی اتباع کی جائے اور مختلف راستوں پر چلنے سے احترازکیا جائے۔
Muslim Girls Names Starting with م – Meem | ‘م’ سے شروع ہونے والے نام | لڑکیوں کے اسلامی نام
تمام افعال و اعمال میں اخلاص:
یہ وصیتیں بیان کرنے کے بعد اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئے کہ مجھے اللہ نے دین حق کی ہدایت دی ہے کہ یہی ابو الانبیاء ابراہیم علیہ السلام کا دین تھا اور یہ کہ میری نماز اور عبادات سارے افعال و اعمال خالص اللہ کے لیے ہیں۔ میں ان اعمال سے صرف اللہ کی رضا چاہتا ہوں۔ سورت کا اختتام اس بات پر ہوا کہ یہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے یہ ابتلا اور آزمائش کے لئے ہے تاکہ مومن و کافر اور نیک و بد میں فرق ہو جائے۔
۔