واقعہ کربلا
خلافت اسلامیہ پر ایک عظیم حادثہ
عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد مسلمانوں پر بہت سارے فتنے آپڑے
ان میں منافقین کی سازشیں اور بھولے بھالے مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنا شامل ہے
مسلمانوں کی آپس میں تلوار چلتی ہے اور مسلمان بھی وہ جو خیر الناس بعد الانبیاء ہیں
حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت جب شروع ہوئی تو خلافت راشدہ کا رنگ ختم ہوتا نظر آنے لگا اس لیے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ مشورہ دیا جاتا تھا کہ وہ اپنے بعد کسی کے بارے میں خلافت کی وصیت کر دیں
تاکہ خلافت اسلامی آپ پارہ پارہ نہ ہو اور مسلمانوں میں تلوار کشی نہ ہواور یہ مشورہ حالات کے تقاضے کے مطابق تھالیکن اس کے ساتھ ہی آپ کے بیٹے یزید کا نام خلافت کے لیے پیش کیا جاتاہے کوفہ سے چند مسلمان آتے ہیں تھا بھیجے جاتے ہیں کہ وہ جا کر حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو کہیں کہ یزید سے بہتر کوئی حکومت چلانے والا نہیں ہےاس لیے اس سے بیعت خلافت لی جائے
حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی شروع میں اس میں تامل ہوتا ہے البتہ مشورے کے بعد اس کا نام ہی مقرر کر دیا جاتا ہے
واقعہ کربلا
خلافت اسلامیہ پر یزید کی بیعت کا حادثہ
شام اور عراق میں پتا نہیں کس کس طرح لوگوں نے یہ مشہور کر دیا کہ کہ یزید کی بیعت لوگوں نے کر لی ہےیہ سلسلہ حجاز کی طرف چلا مدینہ میں مروان حکمران تھا اس نے اعلان کیا کہ حضرت معاویہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی سنت کے مطابق چاہتے ہیں کہ ان کے بعد یزید کی بیعت کر لی جائے
حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر صدیق کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ یہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی سنت نہیں ہے یہ کہ انہوں نے خلافت اپنے بیٹوں میں نہیں چھوڑیں اور اہل حجاز کی نظریں بھی اہل بیت پر لگی ہوئی تھی کہ ان میں سے کسی کو خلیفہ بنایا جائے گا خاص طور پر حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ لوگ حضرت حسین حضرت عبداللہ بن عمر حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر اور حضرت عبداللہ بن عباس کی راۓ کے منتظر تھے ان حضرات کے سامنے سب سے پہلے تو سنت کے اصول تھے کے خلافت جو ہے یہ خلافت نبوت ہے اس لئے اس میں وراثت کا کوئی کام نہیں اور یزید کے حالات بھی ان حضرات کے سامنے تھے اس لیے وہ اس پر راضی نہیں تھے کہ یزید کے ہاتھ پر بیعت کریں اس لیے یہ حضرات اس فیصلے کے خلاف رہے اور اس وجہ سے قتل و غارت گری کے واقعات پیش آئے
(سادات اہل حجاز کا یزید کی بیعت سے انکار)
حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات تک یہ معاملہ یہاں تک کہ رہا اور اہل شام اور اہل عراق میں سے کچھ لوگوں نے یزید کی بیعت بھی کرلی ان کو دیکھتے ہوئے مکہ مدینہ میں بھی عام مسلمانوں نے فتنے سے بچنے کے لئے یزید کی بیعت کر لی لیکن حضرت عبداللہ بن عمر حضرت عبداللہ بن زبیر اور حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے بیعت نہیں کی اور اسی پر ڈٹے رہے اور حق بات پر کھڑے رہے کہ یزید اس بات کے لائق نہیں کہ اس کو مسلمانوں کا خلیفہ بنایا جائے اسی میں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا انتقال ہوگیا
واقعہ کربلا
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد یزید خلافت پر بیٹھا تو اس نے ولید کو خط لکھا اس وقت مکہ اور مدینہ میں عامل تھا حضرت حسین اور دوسرے صحابہ کو بیعت پر آمادہ کرے ولید نے اس سے پہلے جو عامل تھا مروان ان کو بلایا اور اسے اس بات کے بارے میں مشورہ کیا کہ ان کے ساتھ کیا کیا جائے اس نے کہا بھی ہے تمہارے رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر پھیلی نہیں ہے اس لیے ان کو اس بہانے بلا کر قتل کروا دو جب ان کا صدا نہ رات کے پاس پہنچا تو حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت حسین نے اس بات کو سمجھ لیا اور آپس میں مشورہ کیا بہرحال حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے کچھ لوگوں کے ساتھ ولید کی دربار میں چلے گئے کہاں ہو لیکن ہم معاویہ کے انتقال کی خبر سنائی اور بیعت کرنے کی بات کی لیکن حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے انکار کر دیا اور وہاں سے چلے گئے
(مدینہ سے مکہ روانگی)
سارے حالات میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ اپنے بھائی جعفر کو لے کر مدینہ سے مکہ روانہ ہو گیا اب ان لوگوں نے حضرت حسین کا پیچھا شروع کیا تو حضرت حسین بھی اپنی اولاد اور گھر والوں کو لے کر مدینہ سے مکہ روانہ ہو گئے یزید نے ولید کو سستی کی وجہ سے معزول کر دیا اور اس کی جگہ حجاز کا امیر عمرو بن سعید اشدق کو بنایا اور پولیس کا افسر حضرت عبداللہ بن زبیر کے بھائی عمر بن زبیر کو بنایا جانتا تھا کہ عمر بن زبیر اور عبداللہ بن زبیر کے درمیان شدید اختلاف ہے اسی لئے عمل بن زبیر عبداللہ بن زبیر کو گرفتار کرنے میں کوتاہی نہیں کرے گا
عمرو بن زبیر نے سب سے پہلے مدینہ میں جو حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھی تھے ان پر ظلم کیا اس کے بعد دو ہزار کا لشکر لے کر مدینہ سے مکہ روانہ ہو گیا اور وہاں جاکر پڑاؤ ڈالا اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیجا کہ مجھے یزید کی طرف سے یہ خط آیا ہے اور مجھے گرفتاری کرنے کا حکم دیا گیا ہے لہذا خود کو میرے حوالے کر دو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے کچھ لوگوں کو اس کے مقابلے کے لئے بھیجا اور انہوں نے اس کو شکست دی اور وہ لوگ واپس آگئے عبداللہ بن زبیر نے ابن علقمہ کے گھر پناہ لی
حسین رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے کہ راستے میں عبداللہ بن مطیع سے ملاقات ہوئی اور دریافت کیا کہ کہاں کا ارادہ ہے فرمایا ابھی مکہ جا رہا ہوں وہاں جا کر استخارہ کروں گا اس کے بعد آگے کا سوچوں گا عبداللہ بن مطیع نے کہا کہ میں آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ کوفہ کا ارادہ بالکل نہ کرنا اس لیے کہ وہ بہت ہی ظالم لوگوں کا شہر ہے وہاں آپ کے والد کو قتل کیا گیا تھا بہرحال حضرت حسین مکہ میں مقیم ہوگئے اور قریب قریب کے مسلمان آپ کی خدمت میں آنے لگے (اہل کوفہ کے خطوط )
اہل کوفہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت عبداللہ بن زبیر نے یزید کی بیعت سے انکار کر دیا ہے تو انہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو خط لکھا اور کہا کہ ہم بھی یزید کی بیعت سے انکار کرتے ہیں آپ یہاں آ جائیں اور ہم جو اس وقت یہاں کہ امیر حضرت نعمان بن بشیر کو نکال دیں گے اور آپ کی بیعت کر لیں گے حضرت حسین رضی اللہ انہوں نے خود جانے سے پہلے ہی اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو بھیجا ان کے ہاتھ اہل کوفہ کو خط لکھا کہ تمہارے خطوط مجھے موصول ہوئے میں اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو بھیج رہا ہوں اگر انہوں نے مجھے آنے کا کہا تو فورا ہی کوفہ روانہ ہو جاؤں گا حالات کے مطابق حضرت مسلم بن عقیل نے بھی حضرت حسین کو کوفہ آنے کی دعوت دی
(انقلاب حالات )
اگر کوفہ میں لوگوں کو شکایت کر یزید نے نعمان بن بشیر کو معزول کر دیا اور نیاعامل ابن زیاد کو بنا دیا اور ابن زیاد کو حکم دیا کہ وہ وہاں جاکر مسلم بن عقیل کو قتل کردے ابن زیاد کو پہنچا تو اس نے دھوکے سے ابن عقیل کو گرفتار کرلیا اور حضرت مسلم بن عقیل کو اور ان کے جو حمایت کرنے والے تھے ان کو بھی قتل کر دیا
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی کوفہ روانگی
حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی کوفہ روانگی سے پہلے بہت سارے صحابہ نے نہ جانے کا مشورہ دیا ان میں حضرت عبداللہ بن عباس بھی شامل تھے اور عبداللہ بن جعفر اور عمر بن عبدالرحمن نے بھی نہ جانے کا مشورہ دیا حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ اس کو دینی ضرورت سمجھ کر جانے کا ارادہ کر چکے تھے
ہر حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اس قدر پکا ارادہ کیا تھا اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے خواب دیکھا تھا جو کہ انہوں نے کسی کو بیان نھیں کیا اور پوچھنے والوں کو فرمایا کہ میرا راز ہے یہ میں کسی کو نہیں بتاؤں گا یہاں تک کہ اللہ سے جا ملوں ادھر سے حاکم کوفہ زیاد نے بھی حضرت حسین سے مقابلے کی تیاری شروع کر دی
حضرت مسلم بن عقیل نے اپنی شہادت سے پہلے ایک شخص کے ذریعے حضرت حسین کو ایک خط بھیج دیا تھا جس میں ان کی شہادت کا واقعہ تھا حضرت حسین کے پاس پہنچا تو انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مشورہ کیا تو حضرت مسلم بن عقیل کے جو عزیز تھے جو ان کے خاندان والے تھے انہوں نے فرمایا کہ ہم بغیر قصاص کے نہیں جائیں گےحضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے پھر بھی اپنے ساتھیوں میں سے اگر کوئی جانا چاہے تو اس کو جانے کی اجازت دی ادھر سے ابن زیاد کا لشکر حر بن یزید کے ساتھ 1000 کی تعداد میں پہنچ گیا
حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے موذن کو اذان دینے کا کہا اذان کے بعد ہم نے نماز پڑھی یہاں تک کہ مقابلے میں آنے والے مخالفین نے بھی حضرت حسین کے پیچھے نماز پڑھی اس کے بعد حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ کچھ اور بھی لوگ شریک ہوگئےسیدنا حضرت حسن حسین سے ہوئے تھے کہ اچانک انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھتے ہوئے اٹھے صاحبزادے نے پوچھا اے ابا جی کیا ہوا فرمان لگے تو میں نے ایک خطرناک خواب دیکھا ہے کچن گھوڑسوار ہیں اور ان کے ساتھ ان کی موت ہی چل رہی ہے مجھے لگتا ہے یہ ہماری موت کی خبر ہے اسی دوران عمر بن سعد چار ہزار کا لشکر لے کر وہاں پہنچ گیا عمر بن سعد حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی ملاقات ہوئی تو آنے کا مقصد پوچھا حسین سب کچھ بتا دیا اور کہا میں واپس نہیں جاؤں گا عمر بن سعد نے ابن زیاد کو سب کچھ لکھ بھیجا ابن زیاد نے جواب دیا کہ حضرت حسین کے سامنے ایک بات رکھو کہ وہ یزید کی بیعت کر لیں یا پھر ان کا پانی بند کردو
حضرت حسین کی دوبارہ ملاقات ابن سعد سے ہوئی حضرت حسین نے تین بات سامنے رکھیں پہلے یہ کیا تم مجھے میں جہاں سے آیا ہوں واپس جانے دو یا مجھے یزید کے پاس جانے دو کہ میں اپنے معاملہ طے کروں مجھے مسلمانوں کی سرحد پر پہنچا دو کہ میں عام لوگوں کی طرح زندگی گزاروں
ابن زیاد نے ان شرطوں کو منظور کرنے کا ارادہ کیا تو شوہر نے اسے مشورہ دیا کہ تم حسین کو موقع دے رہے ہو اور تمہارے خلاف کھڑا ہو جائے گاابن زیاد بھی شہر کی باتوں میں آگیا اور حضرت ابن سعد کو خط لکھ کر شمر کے ہاتھ بھیج دیا اور کہا کہ اگر وہ تمہاری بات مان لے تو ٹھیک ہے ورنہ تم۔اسے قتل کر دینا اور لشکر کی کمان سنبھال لینا
عمر خط لے کر اپنے ساتھ خط لے کر پہنچا اور سارا قصہ سنایاابن سعد سمجھ گئے کہ یہ ساری کی ساری چال اسی کی ہےحضرت حسین کو اس کا پیغام بھیجا گیا انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ اس ذلت سے موت اچھی ہےاسی رات حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا سوئے ہوئے تھے اچانک اٹھ کر بیٹھ گئے ہمشیرہ نے پوچھا کیا ہوافرمایاخواب میں حضور کی زیارت ہوئی حضور نے فرمایا کہ تم ہم سے ملنے والے ہو ہمشیرہ رونے لگیفرمایا میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ میری شہادت پر کپڑے نہ پھاڑنا زور سے نہ رونا سینہ کوبی نہ کرنا
ابن سعد نے اپنے لشکر کو چار حصوں میں تقسیم کیا اور مقابلے کے لئے کھڑا ہو گیا حسین نے بھی اپنے لشکر کو سیدھا کیا ان کو خطبہ دیا بہنوں نے آہ و زاری کی تو اپنے بھائی عباس کو بھیجا اور ان کو خاموش کروایا اور فرمایا ابن عباس نے صحیح کہا تھا عورتوں کو ساتھ نہ لے جاؤ
اس کے بعد حضرت حسین نے ایک درد انگیز خطبہ دیا
چناچہ لڑائی شروع ہوئی
7>
سانحہ کربلا کے نتائج