Para No. 2 – Complete Quran e Pak with Urdu Translation | khulasa e quran para by para (2) |سورۃ البقرہ ( پارہ نمبر 2 )

Table of Contents

سورۃ البقرہ ( پارہ نمبر 2 )

 

khulasa e quran para by para (2) 

تحویل قبلہ 

دوسرے پارے کی ابتدا ہوتی ہے تحویل قبلہ کے ذکر سے
اصل میں مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تقریبا سولہ مہینوں تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہےلیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دلی آرزو یہ تھی کہ کعبہ کو مسلمانوں کا قبلہ قرار دیا جائےجو کہ ملت ابراہیمی کا ایک حسی اور ظاہری شعار تھااللہ رب العزت نے تحویل قبلہ کا حکم نازل فرما کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قدیمی آرزو کی تکمیل کی

بے بنیاد اعتراضات

طلحہ کو بدلنے کا حکم نازل ہوا تو مشرکین اور منافقین بے جا اور بے بنیاد اعتراضات اٹھائے
لیکن اس معاملے میں یہودی پیش پیش تھےوہ بظاہر بڑے تعجب سے لیکن حقیقت میں بغض اور عناد کی وجہ سے کہتے تھےکہ انہیں کس چیز نے اس قبلہ سے پھیر دیا جس کی طرف رخ کر کے یہ پہلے عبادت کیا کرتے تھے

جہات اللہ کی ملکیت ہیں اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایاکیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما دیجئے کہ ساری جہتیں خواہمشرق ہوں یا مغرب اللہ ہی کی ہیں بس اللہ رب العزت کو یہ اختیار ہے کہ جس سمت کو چاہیے قبلہ قرار دے دے گویا یوں کہا گیا کہ ساری کی ساری سمتیں اللہ کی ملکیت ہیں
کسی بھی جیت کو دوسری جہت پر اپنی ذات کے اعتبار سے کوئی فضیلت حاصل نہیں ہےاور نہ ہی کوئی جہت خود قبلہ بننے کی صلاحیت رکھتی ہے بلکہ وہ اللہ کے حکم سے قبلہ بنتی ہیں لہذا تحویل قبلہ کے بارے میں ان کے اعتراضات کی کوئی حقیقت نہیں ۔

اللہ کی طرف توجہ :

ویسے بھی اصل اہمیت کسی جہت کی طرف توجہ کو نہیں بلکہ اصل اہمیت اللہ کی طرف توجہ کو حاصل ہے

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن ادب:؛

ان آیات کریمہ کے مطالعہ سے اللہ تعالی کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن ادب بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شدت اشتیاق اور انتظار وحی میں بار بار آسمان کی طرف اپنی مبارک نگاہیں اٹھاتے تو تھےمگر تحویل قبلہ کا سوال نہیں کرتےکہ شاید اللہ جل شانہ کا فیصلہ اور اس کی رضا عدم تحویل ہی میں ہو۔

ایک عظیم نعمت :

شاید اسی مناسبت سے اللہ جل شانہٗ نے تحویل قبلہ کا حکم دینے کے فورا بعد اہل ایمان پر اس نعمت عظمیٰ کا ذکر فرمایا ہےجو انہیں سراج منیر اور بشیرونذیر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں عطا ہوئی ایک بڑا احسان :

مستقل قبلہ کا تعین بھی اللہ تعالی کا بہت بڑا احسان ہےاور اسی طرح ہدایت کے لئے اتنے عظیم و شان والےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجنا بھی بے مثال احسان ہےپوری زندگی کا رخ :اللہ رب العزت نے تحویل قبلہ کی بحث کو سمیٹتے ہوئے آخری اور فیصلہ کن جو بات ارشاد فرمائی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ حقیقی نیکی کا معیار مشرق اور مغرب کی طرف رخ کرنا نہیں بلکہ حقیقی نیکی کا معیار یہ ہے:

کہ عقائد ، اعمال ،معاملات، اور اخلاق سب کا رخ صحیح ہواور دوسری بات یہ کہ اللہ کو راضی کرنے کے لئے صرف چہرے کا رخ ہی نہیں بلکہ دل اور پوری زندگی کا رخ بھی بدلنا ہوگا

اصل نیکی :

اصل نیکی یہ ہے کہ بندہ اللہ رب العالمین پر آخرت کے دن پر فرشتوں پر آسمانی کتابوں پر اور انبیاء علیہم السلام پر ایمان رکھتے ہیں اسی طرح اپنے قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں اور مانگنے والوں کی مالی مدد کرتے ہیں اسی طرح قیدیوں کو اور غلاموں کو آزاد کرواتے ہیں نماز قائم کرتے ہیں
زکوٰۃ ادا کرتے ہیں جب وعدہ کرتے ہیں تو وعدہ وفا کرتے ہیں تنگدستی اور تکلیف میں صبر کرتے ہیں
اور ساتھ ساتھ اپنی پوری زندگی کا رخ ہی نہیں کرتے ہیں یہ سولہ قسم کے ایسے اعمال ہیں جو درحقیقت اصل نیکی ہیں اور یہ اعمال سارے کے سارے آیت بر کہ اندر اللہ رب العزت نے بتائے ہیں

دین اسلام صرف مذہبی رسوم کا نام نہیں ہے :آیت بر کو علماء کرام نے بڑی اہمیت دی ہے
چنانچہ اس سے کم و بیش 16 قواعد اخذ کئے ہیں اس آیت کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دین اسلام محض چند ایسی مذہبی رسوم کا نام نہیں ہے

جنہیں عبادت خانے اور خانقاہ میں ادا کیا جاتا ہے بلکہ دین اسلام کا تعلق زندگی کے ہر شعبے سے ہے اور دین اسلام انسان کے ساتھ ہمیشہ اور ہر جگہ رہتا ہےچاہے وہ گھر ہو ،بازار ہو ،مسجد ہو ،مدرسہ ہو ،سیاست اور حکومت ہو ،تجارت اور معاشرت ہو یہ مسلمان کی ہر جگہ نگرانی کرتا ہے
اور مسلمان پر لازم ہے کہ وہ ہر قدم اسے دیکھ کر اٹھائےاس آیت کریمہ کو “آیت بر” کہا جاتا ہےاور اس آیت کے بعد جو احکام اور مسائل بیان کیے گئے ہیں انہیں ابواب بر کہا گیا ہے

گویا پہلے اجمالی طور پر نیکی کے اصول بتانے کے بعد آگے ان کی جزوی تفصیلات اور احکام ذکر کیے گئے ہیں یہ احکام مسلمان کی معاشی، معاشرتی، تجارتی ،ازدواجی اور جہادی زندگی سے تعلق رکھتے ہیںان میں سے دو احکام تو ایسے ہیں جو اس آیت سے پہلے ذکر کئے گئے

نمبر 1 صفا مروہ :

کیوں کہ زمانہ جاہلیت میں صفا مروہ پر دو بت رکھے ہوئے تھےجن کے مشرکین عبادت کرتے تھے
اس لئے قبول اسلام کے بعد حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ صفا مروہ کا طواف کرنے سے ڈرتے تھےاس لئے فرمایا گیا کہ ان کا طواف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے

نمبر دو حرام اشیاء :

مشرکین خودبخود بعض چیزوں کو حلال اور بعض کو حرام ٹھہرا لیتے تھے
ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا گیا ہےکہ حرام اشیاء وہ نہیں جنہیں تم حرام کہتے ہوبلکہ اللہ تعالی نے تو صرف ان چیزوں کو حرام کیا ہےمردار، بہتا ہوا خون، خنزیر کا گوشت اور ہر ایسا جانور جس پر اللہ تعالی کے سوا کسی اور کا نام لیا گیاصرف یہ اشیاء ہی حرام ہے

ہاں البتہ یہ بات ہے کہ اگر کوئی شخص بھوک سے مجبور ہو کر ان میں سے کوئی چیز کھا لے تو اسے کچھ بھی گناہ نہیں ہوگالیکن اس کے اندر اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ کھانے کا مقصد لذت حاصل کرنا نہ ہو اور نہ ہی اپنی ضرورت سے زیادہ کھائیے

قصاص میں حیات ہے :

اسلام کی بنیاد عدل پر ہےاسی لئے مسلمانوں پر قصاص فرض کیا گیا ہےیعنی مقتول کے بدلے قاتل کو بھی قتل کیا جائے گا چاہے مقتول اور قاتل کے درمیان سماجی، خاندانی، مالی و جسمانی اعتبار سے کتنا ہی فرق کیوں نہ ہوقصاص میں زندگی ہے ،قاتل کی بھی اور مقتول کی بھی جب قاتل کو اپنے جرم کی سزا ملنے کا یقین ہوگا تو شدت غضب کے باوجود اپنا ہاتھ قتل سے روک لے گااس کے رک جانے سے مقتول اور قاتل دونوں بلکہ ان کا خاندان بھی قتل و قتال سے بچ جائے گا

انصاف 

اسلام میں قتل کی سزا میں رحمت اور انصاف دونوں چیزوں کو جمع کر دیا ہےمقتول کے اولیاء اورورثاءاگر قصاص کا مطالبہ کریں تو یا عدل ہوگااسی طرح اگر وہ معاف کر دےیا دیت لینے پر راضی ہوجائیں تو فضل اور احسان اور رحمت ہوگی

وصیت

ایسا مالدار آدمی جسے اپنی موت قریب آ جانے کا احساس ہو جائے اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے مال کے بارے میں وصیت کر جائے

روزے کا مقصد 

ہر بالغ،عاقل، مسلمان پر روزے فرض ہیں روزے اگر واقعی تمام آداب کا لحاظ رکھتے ہوئے رکھے جائیں تو انسان میں تقویٰ پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی احساسات کو بھی بیدار کرتے ہیں

رمضان المبارک کی فضیلت :

جس مہینے میں روزے فرض کئے گئے ہیں اسے یہ خصوصیت اور فضیلت بھی حاصل ہے کہ اس میں قرآن جیسی عظیم الشان کتاب نازل ہوئی،مسافروں اور بیماروں کو روزہ چھوڑنے اور قضا کرنے کی اجازت ہے

رمضان المبارک اور مباشرت :

رمضان کی راتوں میں بیوی کے ساتھ جماع جائز ہے دن میں نہیں لیکن رمضان المبارک میں اگر بندہ اعتکاف کر لے تو اعتکاف کی حالت میں نہ رات کو جائز ہے نہ دن میں جائز ہے

ناجائز کمائی 

کسی بھی باطل اور ناجائز طریقے سے مال کمانا جائز نہیں خواہ وہ جو اہو ،چوری ہو ،ڈاکہ، غصب۔ رشوت اور سودی کاروبار ہو یا خرید و فروخت کے ناجائز طریقے ہوں بہر صورت ایسی کمائی نہ جائز ہے

قمری تاریخ :

قمری تاریخ کو کا استعمال فرض کفایہ بھی ہے اور اسلامی شعار بھی کئ عبادات کامدار چاند کی معرفت پر ہے

قتال اور جہاد 

مسلمانوں پر قتال اور جہاد فرض ہےجہاد کا مقصد اللہ تعالی کے نام کی بلندی ہوکیونکہ حق اور باطل اور خیر و شر کے درمیان ٹکراؤ ازل سے ابد تک ہے اور رہے گااس لیے جہاد بھی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ ہی رہے گامسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ جہاد کے لیے ہمیشہ تیار رہیں دشمن کے سامنے اپنے آپ کو کمزور ظاہر نہ کریں ورنہ جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات کے سوا کچھ نہیں

حج :

حج اسلام کے ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے

مقصد حج :

اللہ تعالی کی یہ چاہت ہے کہ پوری دنیا سے مسلمان سال میں ایک بار مساوات کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئےمحترم شہر میں جمع ہوں اور وہاں اس کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق حج کے اعمال اور مناسک ادا کریں

احرام

حج کا احرام چند مخصوص مہینوں میں ہی باندھا جاتا ہےالبتہ عمرہ پورے سال میں کسی بھی وقت ادا کیا جا سکتا ہے

دوران حج خریدوفروخت

حج کے دنوں میں خرید و فروخت اور تجارت کرنا جائز ہے

حج کی بدعات

زمانہ جاہلیت میں مشرکوں نے بہت ساری رسومات اور بدعات کا اضافہ کر لیا تھاجن میں سے چند ایک یہ ہیںزمانہ جاہلیت میں قریش مزدلفہ میں ہی ٹھہر جاتے اور میدان عرفات میں جانا اپنی توہین سمجھتے تھےاس لئے اللہ رب العزت کی طرف سے انہیں یہ حکم دیا گیاکہ وہ بھی عام لوگوں کی طرح عرفات جا کر واپس آئیں اور اپنے لئے کوئی الگ شخص ثابت نہ کریں دوسری بدعت یہ تھی کہ مشرکین منٰی میں جمع ہوکر آباؤ اجداد کے مفاخر بیان کیا کرتے تھےاللہ رب العزت نے انہیں کہا کہ وہ اپنے آباؤ اجداد کے علاوہ اللہ کا ذکر کریں

اللہ کے راستے میں خرچ کرنا
اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کے ضمن میں یہ بتایا کہ اہمیت اس بات کو حاصل نہیں کہ کیا خرچ کیا جاتا ہےبلکہ اصل اہمیت اس بات کو حاصل ہےکہاں خرچ کیا جاتا ہےاور کس نیت سے خرچ کیا جاتا ہے
لہذا ہمیں چاہیے کہ اللہ کے دیے ہوئے مال و دولت کو صحیح مصرف پر خرچ کرنا ضروری سمجھیں

مرتد کی سزا :

جو شخص مرتد ہو جائے یعنی دین اسلام سے پھر جائےاس کے سارے کے سارے عمل باطل ہو جاتے ہیں اور وہ جہنم کا حقدار ہو جاتا ہےاور دنیا میں اس کی سزا یہ ہےکہ اگر وہ سمجھانے کے باوجود باز نہ آئے تو اسے قتل کر دیا جائے

شراب اور جوا !

شراب اور جوا میں اگرچہ ظاہری اور مادی منافع ہیں لیکن ان میں جسمانی،عقلی،مالی، اخلاقی اور معاشرتی اعتبار سے جو نقصانات ہیں وہ زیادہ ہیں بنسبت منافع کے

شراب ام الخبائث :
شراب کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ یہ ام الخبائث یعنی سارے گناہوں اور ساری خباثتوں کی جڑ ہے

ازدواجی زندگی :

بعض اجتماعی بیماریوں کی نشاندہی کے بعداب خاندانی مسائل بیان کیے جارہے ہیں کہ خاندان ہی ایک اچھے معاشرے کی بنیاد بنتا ہےان مسائل کی ابتدا ازدواجی تعلقات سے کی جارہی ہےاس سلسلے میں پہلا حکم یہ دیا گیا ہے

نکاح :
مشرک مرد اور عورتوں سے کسی صورت بھی نکاح جائز نہیں ہاں البتہ کتابی عورت سے مسلمان مرد کا نکاح ہو سکتا ہےمگر بہتر یہی ہے کہ کتابیہ کے ساتھ نکاح کے بجائے کسی مسلمان عورت کے ساتھ نکاح کیا جائے

ازدواجی رشتے کی بنیاد :

قرآنی حکم سے یہ نکتہ بھی سمجھ میں آتا ہےکہ اسلام میں ازدواجی رشتہ کی بنیاد خلق اور دین پر ہے
حسب نسب یا مالداری اور حسن و جمال پر نہیں کیونکہ یہ چیزیں عارضی ہیں اور نہ ہی یہ چیزیں حقیقی سکون اور راحت کی ضامن ہیں اور نہ ہی سعادت کا سبب بنتی ہیں

قیمتی خزانہ :

البتہ ازدواجی زندگی کے سفر میں نیک اور خوف خدا رکھنے والا ساتھی سفر کے بہت سارے مراحل کو آسان کر دیتا ہےلہذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نیک خاتون کو قیمتی خزانہ سے تعبیر کیا ہے

حالت حیض اور جماع 

عورت کے ایام مخصوصہ کے اندراس کے ساتھ جماع اور مباشرت کرنا یہ جائز نہیں ہے
کیونکہ حیض کے خون میں ایسی نجاست اور ایسے جراثیم پوشیدہ ہوتے ہیں جن کی وجہ سے میاں اور بیوی دونوں کی صحت خطرے میں پڑ سکتی ہے ہاں البتہ آپس میں بوس و کنار اٹھنے بیٹھنے اور اکٹھے کھانے پینے کی اجازت ہے یہ جائز ہےجبکہ یہودی اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتےاور عیسائی حالت حیض میں عورت کے ساتھ جماع کرنا بھی برا نہیں سمجھتےجب کہ دین اسلام کے اندر اعتدال ہےلہذا اسلام نے دوسرے بہت سارے معاملات کی طرح حیض کے معاملے میں بھی افراط و تفریط کے بجائے اعتدال کی راہ کو اختیار کیا ہے

قسم :

اگر کوئی شخص قسم کھا لے کہ وہ چار ماہ تک اپنی بیوی کے قریب نہیں جائے گا تو ،
اس صورت میں پہلی بات یہ ہے کہ چار ماہ گزرنے پر خود بخود طلاق واقع ہو جائے گی
ہاں البتہ اگر اس نے رجوع کرلیا ہو تو نکاح باقی رہے گا طلاق واقع نہیں ہوگی لیکن قسم کا کفارہ اس پر لازم ہوگا

طلاق :

سورہ بقرہ کے اندر جتنی تفصیل کے ساتھ طلاق ،عدت اور رضاعت کے مسائل بیان کئے گئے ہیں
اتنی تفصیل کے ساتھ کسی دوسری سورت میں بیان نہیں کیے گئے

طلاق کی اجازت :

اس سلسلہ میں یہ جان لینا ضروری ہےکہ اللہ کی نظر میں طلاق کے قابل نفرت ہونے کے باوجود مخصوص حالات اور مجبوریوں کی بنا پر طلاق کی اجازت دی گئی ہے

طلاق کی وجوہات :

بعض اوقات میاں بیوی میں سے کوئی ایسا ہوتا ہے جو اپنی بداخلاقی، بدکرداری اور باغیانہ رویہ کی وجہ سے اپنے گھر کو جہنم بنا دیتا ہےجہاں سکون نام کی چیز نہیں ہوتیلہذا ایسی صورت میں طلاق کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں رہتااسلام نے طلاق کی اجازت دینے کے ساتھ اس میں بہت ساری اصلاحات بھی کی ہیں

زمانہ جاہلیت میں طلاق کا طریقہ :

زمانہ جاہلیت میں طلاق کی کوئی حد مقرر نہیں تھیلہٰذا وہ ایسے لوگ تھے کہ سو سو طلاقیں دے کر بھی رجوع کر لیا کرتے تھےاسلام تین سے زیادہ طلاق کی اجازت نہیں دیتا لہذا اگر کوئی شخص طلاق دے اورایک طلاق دے دے اس کے بعد رجوع کیا جا سکتا ہےاور اگر کوئی شخص دو طلاقیں دے تبدیل کیا جا سکتا ہےلیکن اگر کوئی تین طلاقیں دے دے تو اس کے بعد رجوع کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی

حق مہر :

طلاق کی صورت میں شوہر نے مہر کی صورت میں بیوی کو جو کچھ بھی دیا ہو اسے واپس لینے کی اجازت نہیںہاں البتہ اگر بیوی خود سے خلع کرے تو پھر اجازت ہےاور خلع یہ ہے کہ عورت اس شرط پر
کہ پورا مہر یااس کا کچھ حصہ واپس دینے کے لئے آمادہ ہوجائے کہ اسے طلاق دے دی جائےخلع کے لئے زوجین یعنی میاں بیوی کی رضامندی ضروری ہے

حلالہ :

اگر کوئی طلاق یافتہ عورت کسی دوسرے مرد سے نکاح کر لےلیکن کسی وجہ سے اس کے ساتھ بھی نہ بن سکےتو وہ اس سے طلاق لینے کے بعد پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کر سکتی ہےاسے حلالہ کہتے ہیںلیکن فی زمانہ حلالہ کے نام پر جو ڈرامہ کیا جاتا ہے اس کے کرنے والے اورکروانے والے دونوں پر حدیث پاک میں لعنت کی گئی ہے

رجوع:

طلاق کے بعد عورت کو محض اذیت سے دوچار کرنے کے لیے رجوع کرنا جائز نہیں

رضاعت :

چونکہ اسلام عدل اور احسان کا دین ہےجو کسی پر بھی ظلم کی اجازت نہیں دیتاخواہ بچہ ہو یا بڑا، مرد ہو یا عورت

شیر خوار بچے کے حقوق :
اس لئے اسلام نے دودھ پیتے بچوں کے حقوق بھی بیان کی ہیں

ماں کے دودھ کا نعم البدل :

ہمارے زمانے میں پوری دنیا کے اندر یہ ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے کہ ماں کے دودھ کا کوئی نعم البدل نہیں
مگر اسلام نے اس وقت ماؤں کو اپنے بچوں کو دودھ پلانے کا حکم دیا تھا جب پوری دنیا جہالت کی تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی اور ماں کے دودھ کی افادیت کسی کو معلوم تک نہ تھی

جدائی کی صورت میں ماں کا حق :

اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے اندر جدائی ہو جاتی ہے تو دودھ پیتے بچے کی پرورش اور اسے دودھ پلانے کا زیادہ حق ماں ہی کو حاصل ہےطلاق اور جدائی کی وجہ سے معصوم کو سزا دینا جائز نہیں

عدت :

طلاق ہو جائے یا شوہر کی وفات کا سانحہ پیش آ جائے دونوں صورتوں میں عورت پر عدت لازم آتی ہے

اب اگر عدت طلاق کی ہو تو اس صورت میں عدت کی مدت تین حیض ہےپر اگر شوہر کے انتقال کی وجہ سے ہو تو پھر عدت کی مدت چار ماہ اور دس دن ہےجو عورت زمانہ عدت میں ہو اس سے نکاح کے بارے میں وعدہ لینا یہ جائز نہیںالبتہ دل میں خواہش رکھنے اور اشارہ کنایہ میں اپنی خواہش کے اظہار کی اجازت ہے

جہاد :

خاندان اور معاشرہ کی اصلاح اپنی جگہ بے حد اہمیت رکھتی ہےلیکن اس کے لیے حق اور حق میں معین و مددگار کی بقاء بھی ضروری ہے

موت کے ڈر سے جہاد سے راہ فرار اختیار کرنے والوں کی شدید مذمت کی گئی ہے بعض مقامات پر اس حوالے سے پہلی امتوں کے قصے بھی بیان کئے گئےیہاں دوسرے پارے کے اختتام پر بھی دو قصے مذکورہیں

پہلا قصہ ایسی قوم کا ہے جو طاعون کی بیماری پھیل جانے کے بعد موت سے ڈر کر گھروں کو چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوئی تھی

تدبیر اور تقدیر

لیکن یہ فرار اور یہ کہ اگر انہوں نے موت سے نہ بچا سکااس سے ہمیں یہ سبق ملا کہ کوئی بھی تدبیر انسان کو تقدیر سے نہیں بچا سکتی

اور دوسرا قصہ بنی اسرائیل اور حضرت طالوت علیہ السلام کا ہےجن کی قیادت میں جہادی صفات سے مالامال تھوڑے سے لشکر نے اپنے سے کئی گنا بڑے لشکر کو شکست دے دی یہ قصہ ایسا تھا کہ خود بنی اسرائیل کے بھی صرف خواص ہی کے علم میں تھاعوام اس سے بے خبر تھےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے تاریخ کے اس بھولی بسری داستان کا بیان ہو جانایہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رابطہ اس ذات سے ہےجس کی نظر سے تاریخ کی کوئی کڑی بھی اوجھل نہیں
اور یہ کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم واقعی سچے رسول ہیں اسی لئے اس قصہ کے آخر میں فرمایا گیا ہےکہ اللہ تعالی کی آیتیں ہیں جو ہم آپ( صلی اللہ علیہ وسلم) کو ٹھیک ٹھیک پڑھ کر سناتے ہیںاور بے شک آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ہمارے رسولوں میں سے ہیں

اسی آیت پر دوسرے پارے کا اختتام ہے

1>Khulasat ul Quran para number 2 | Dosre pare ka khulasa

2>Khulasa e Quran Urdu Para 2

3>Quran e pak para 2 only urdu translation

4>Quran e Pak Kay Para Number 28 Ka Khulasa

5>Para No. 2 – Complete Quran e Pak with Urdu Translation

6>سورۃ البقرہ کا خلاصہ

7>سورہ بقرہ کی آخری دو آیات کب نازل ہوئی

8>سورہ بقرہ کی خصوصیات

9>سورۃ البقرہ کا تعارف اور فضیلت 

Leave a Comment