روزہ ایک عجیب عبادت ہے کہ انسان روزہ رکھ کر اپنے ہر کام کو انجام دے سکتا ہے
روزہ رکھ کر صنعت اورحرفت تجارت و زراعت ہر کام کر سکتا ہے
اورلطف اس کا یہ ہے کہ ان کاموں میں مشغول ہونے کے وقت بھی روزہ کی عبادت روزہ دار سے بے تکلف خودبخود صادر ہوتی رہتی ہے اور اس کو عبادت میں مشغول رہنے کا ثواب ملتا رہتا ہے
روزہ اللہ تعالی کا وہ بابرکت فریضہ ہے جس کو اللہ تعالی نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے
اور قیامت کے دن اللہ تعالی اس کا بدلہ اور اجر بغیر کسی واسطے کے بذات خود روزہ دار کو عنایت فرمائیں گے
کیا چہل حدیث قدسی میں ارشاد ہے “”الصوم لی و انا اجزی بہ””کہ روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا
نماز، روزہ سب عبادات اللہ تعالی کی ہی ہیں اسی کو راضی اور خوش کرنے کے لئے سب عبادات کی جاتی ہیں
مگر روزہ ایک عجیب خصوصیت اپنے اندر رکھتا ہے وہ ریا ،دکھلاوے سے بالکل دور، چشم اغیار سے پوشیدہ سرابا اخلاص ،بندےاور معبود کے درمیان ایک راز ہے حتی کہ اس کا علم بھی صحیح طور پر بجزروزہ دار کے اور اس ذات اقدس جل جلالہ کے جس کے لیے یہ روزہ رکھا گیا ہے دوسرے شخص کو نہیں ہوتا ۔
کیونکہ روزہ کی کوئی ظاہری صورت اور محسوس ہیئت نہیں ہوتی جس کی وجہ سے دیکھنے والوں کو اس کا ادراک اور علم ہو سکے
بخلاف دوسری عبادات کے کہ ان کی ایک ظاہری صورت بھی ہوتی ہے جس کے دیکھنے پر عبادت کا اظہار ہوتا ہے
جب روزہ ایک راز ہے روزہ دار اور اس کے درمیان میں
تو پھر اس کابدلہ اور ثواب دینے میں بھی یہی مناسب تھا کہ خصوصی اور رازدارانہ طریقہ اختیار کیا جاتا جس کی اطلاع فرشتوں کو بھی نہ دی جاتی چنانچہ کسی واسطے کےبغیر روزہ دار کو اس کا بدلہ عطا فرمائیں گے
اسی خصوصیت کی وجہ سے اللہ تعالی نے روزہ کو اور اس کی جزا اور ثواب کو الصوم لی وانا اجزی بہ میں اپنی طرف منسوب فرماکر اس کی شرافت اور عظمت کو بڑھا دیا ہے
اور پیغمبر دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مختلف احادیث میں بکثرت اس کے مخصوص فضائل اور مناقب بیان فرمائے ہیں
چنانچہ
فرمایا کہ جس شخص نے ایک دن کا روزہ اللہ تعالی کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے رکھا اللہ تعالی اس کو دوزخ سے اس قدر دور رکھیں گے کہ جس قدر کوا اپنے ابتدائی عمر سے بوڑھا ہو کر مرنے تک اڑان میں مسافت طے کرتا ہے
(کوّے کی عمر بہت طویل ہوتی ہے ،اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہزار برس کی ہوتی ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس قدر طویل مسافت پوری عمر میں طے کر لیتا ہے )
اسی طرح پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص رمضان کے روزے رکھے اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے اور اس کے حکم کا امتثال کرتے ہوئے اس کے گذشتہ گناہ بخش دئیے جاتے جائیں گے
اسی طرح سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے “”الصیام جنه””کہ روزہ روزہ دار کے لیے سپر اور ڈھال ہے
یعنی روزہ دار ،روزہ کی وجہ سے دنیا میں شیطان کے شر سے بچتا ہے اور اس کے حملوں کو روکتاہے اور آخرت میں دوزخ کی آگ سے محفوظ رہتا ہے
علامہ بیہقی نے نقل کیا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
روزہ دار کی نیند عبادت ہے اور اس کے خاموش رہنے میں بھی اس کو تسبیح یعنی سبحان اللہ کہنے کا ثواب ملتا ہے اور اس کے ہر عمل کا ثواب بڑھا دیا جاتا ہے اور اس کی دعا قبول ہوتی ہے اور اس کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں (مظاہر حق)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالی کے نزدیک مشک کی بو سے زیادہ پسندیدہ ہے
گویا روزہ دار اللہ تعالی کا محبوب ہو جاتا ہے اور اس کی خلوف یعنی منہ کی بو بھی اللہ تعالی کو پسند اور خوشگوار ہوتی ہے
فائدہ
خلوف جس کا ذکر اس حدیث میں آیا ہے وہ معدہ کے خالی ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے تو جب تک معدہ خالی رہے گا یہ خلوف بھی رہے گی
اس لیے عوام کا یہ خیال قابل اصلاح ہے کہ وہ روزہ کے اندر مسواک کو منع سمجھتے ہیں
اور بعض اہل علم بھی اس بنا پر کے منہ کی بو مسواک سے زائل ہوجاتی ہے روزہ کی حالت میں مسواک کے جواز میں تردد اور شک کرتے ہیں
یہ صحیح نہیں ہے مسواک سے صرف دانت صاف ہو جاتے ہیں اور منہ کی بدبو دور ہوجاتی ہے معدہ میں اس سے کوئی چیز نہیں پہنچتی ۔
اس لیے مسواک کے بعد بھی وہ خلوف باقی رہتی ہے جس کا اللہ تعالی کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہونا حدیث میں فرمایا گیا ہے ۔
لہذا مسواک روزہ کی حالت میں بھی ہر نماز کے وقت سنت ہے ۔ظہر اور عصر میں بھی مسواک کرنی چاہیے ۔
اور مظاہر حق میں بیہقی سے منقول ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کے ایک پیغمبر کی طرف یہ وحی بھیجی کہ اپنی قوم کو خبردار کر دیں کہ جو بندہ میری رضامندی کے واسطے کسی دن روزہ رکھتا ہے تو میں دنیا میں اس کے جسم کو تندرست رکھتا ہوں اور اس کو آخرت میں بہت زیادہ ثواب عطا کرتا ہوں