Qast e Shireen Ke Fawaid II Costus Root Health Benefits | قسط( کست) یہ دونوں الفاظ مترادف ہیں

قسط( کست) یہ دونوں الفاظ مترادف ہیں

 

Qast e Shireen Ke Fawaid II Costus Root Health Benefits

 

صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

جن چیزوں سے تم علاج کرتے ہو ان میں سب سے بہترین دوا پچھنا لگوانا اور قسط سمندری ہےمسند میں ام قیس کی حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتم اس عود ہندی کو بطور دوا استعمال کرو اس لئے کہ اس میں سات بیماریوں کے لئے شفا ہے اور ذات الجنب انہیں بیماریوں میں سے ایک بیماری ہے

 

قسط دوطرح کی ہوتی ہے ایک سفید رنگ کی ہوتی ہے اس کو قسط سمندری کہتے ہیں اور دوسری قسم کو ہندی کہتے ہیں جو سفید رنگ کی قسط سے گرم تر ہوتی ہے اور سفید رنگ کی قسط اس سے کمتر ہوتی ہے

ان کے فوائد بے شمار ہیں

 

دونوں قسم کے قسط تیسرے درجے میں گرم خشک ہوتی ہیں بلغم کو خارج کرتی ہیں اس زکام کے لئے دافع ہے اور دونوں کی برودت کے لئے مفید ہیں اور اسی طرح بادی اور معیادی بخار کے لئے مفید ہیں پہلو کے درد کو ختم کرتی ہیں ہر قسم کے زہر کے لئے تریاق کا کام کرتی ہیں اگر اس کو پانی اور شہدکے ساتھ ملا کر چہرے کی مالش کی جائے تو جھائیاں جاتی رہتی ہیں

 

حکیم جالینوس نے لکھا ہے کہ قسط ٹیٹنس اور درد زہ میں مفید ہےاور کدو دانے کیلئے قاتل ہےچونکہ فن طب سے ناآشنا اطباء کو اس کا علم نہ تھا کہ قسط ذات الجنب میں مفید ہے اس لیے انہوں نے اس کا انکار کیا ہےاگر یہ بات کہیں حکیم جالینوس سے ان کو ملتی ہے تو اسے نص کا مقام دیتے ہیں
حالانکہ بہت سے متقدمین اطباء نے اس بات کی تشریح کردی ہےکہ قسط بلغم سے ہونے والے ذات الجنب کے درد میں مفید ہے اس کو خطابی نے محمد جہم کے واسطے سے بیان کیا ہےہم اس سے پہلے بھی یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ انبیاء اوررسولوں علیھم السلام کی طب کے سامنے اطباء کی موجودہ طب کی حیثیت اس سے کمتر ہے جو فسوں کاروں اور کاہنوں کا طریقہ علاج اطباءکے اس مکمل فن طب کے مقابلہ میں ہےاور قابل غور بات یہ ہے کہ جو علاج وحی الہی کے ذریعے تجویز کیا گیا ہو اس کا مقابلہ اس علاج سے کیسے کیا جا سکتا ہے جو صرف تجربہ اور قیاس کا رہین منت ہو ان دونوں کے درمیان ایڑی چوٹی سے بھی زیادہ کا فرق ہے

یہ نادان تو ایسی بےعقل ہیں اگر ان کو یہود و نصاریٰ اور مشرک اطباء سے کوئی دوا مل جائے تو اسے آنکھ بند کرکے قبول کر لیتے ہیں اور تجربہ کی کوئی شرط اس کی قبولیت کے لیے نہیں پیش کرتےہم بھی اس بات کے منکر نہیں ہیں کہ عادت کا دواؤں کے اثر میں خاص مقام ہوتا ہےاور اسکی تاثیرات کے نافع اور ضرر رساں ہونح میں یہ چیز مانع بن سکتی ہےچنانچہ جو شخص کسی خاص دوا یا غذا کا عادی ہو اس کے لیے یہ دوا زیادہ نفع بخش اور موزوں ثابت ہوتی ہے

بنسبت اس کے جو کہ اس کا عادی نہیں ہوتا اس کو اتنا فائدہ نہیں ہوتا بلکہ کبھی کچھ بھی فائدہ نہیں ہوتااگرچہ فاضل اطباء کسی بات کو مطلقا بیان کرتے ہیں مگر اس میں باطن مزاج موسم مقامات اور عادات کی رعایت ہوتی ہےاور جب یہ قید اس کے کسی علاج یا تشخیص کے سلسلہ میں بڑھا دی جائے تو ان کے کلام اور ان کی عملی دسترس پر کوئی حرف نہیں آتاتو پھر یہ کیسے صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام پر حرف آسکتا ہےکیونکہ اکثر انسان جہالت اور گمراہی کاپتلا ہوتا ہے اس لیے وہ اس سے باز نہیں آتےہاں وہ شخص اس زمرہ سے خارج ہے جس کو اللہ تعالی روح ایمانی اور نور بصیرت عطاءکر کے ہدایت دے اور اس کی مدد کر دیں

Leave a Comment