مہر کے شرعی احکام ۔
Sharai Haq mehar amount in Pakistan 2021
میرے بھائیو آج کا ہمارا موضوع ہے مہر کے شرعی احکام کہ مہر شریعت کے اندر کتنا ہے کم ہے زیادہ ہے ۔
نکاح میں شرعی مہر زیادہ مقرر کرنا خلاف سنت ہے ۔حدیث شریف میں ہے ۔فرمایا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے خبردار مہر زیادہ مت ٹھہراؤ .اس لیے کہ اگر یہ اللہ کے نزدیک عزت اور تقوی کی بات ہوتی تو تمہارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اس کے زیادہ مستحق تھے ۔ معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بیوی سے نکاح کیا ہو 12 اوقیہ سے زیادہ پر یا کسی صاحبزادی کا نکاح کیا ہو۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے بارہ اوقیہ دیے ہیں بس ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ زیادہ مہر اس لئے ادا کرتے ہیں تاکہ شوہر اپنی بیوی کو نہ چھوڑے ۔ یہ عزر بالکل غلط ہے ۔ جوچھوڑنے والے ہوتے ہیں وہ یہ بالکل نہیں سوچتے کہ حق مہر کتنا ہے وہ چھوڑ ہی دیتے ہیں ۔اور جو لوگ حق مہر پر چھوڑتے ہیں وہ اسے چھوڑتے نہیں۔ بلکہ چھوڑنے سے بھی برا سلوک اس کے ساتھ کرتے ہیں پھر وہ حق مہر کے ڈر سے طلا ق تو نہیں دیتے لیکن اس کے ساتھ سلوک ایسا کرتے ہیں اس کو سکون نہیں دیتے تو اس سے بہتر ہے کہ طلاق ہو جائے ایسا سلوک اس کے ساتھ کرتے ہیں تو کیا فائدہ اس کا حق مہر کا ۔ تو یہ بالکل فضول عزر ہے۔ کچھ لوگ دکھلاوے کے لیے یہ کام کرتے ہیں اور دکھلاوے کے لیے کوئی بھی کام کرنا حرام ہے ۔ جبکہ شریعت کے اندر اس کو خلاف سنت کہا گیا ہے تو یہ تو پھر اور بھی ممنوع ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حق مہر لمبا چوڑا دینا بھی خلاف سنت ہے ۔ بس مہر فاطمی کافی ہے اور موجب برکت ہے پس اگر اتنی بھی وسعت نہ ہو تو کم کر دے ۔ اور کم سے کم حق مہر آج کے دور میں پانچ ہزار روپے ہے ۔
جب نکاح ہوجائے تو نکاح کے بعد سب سے پہلا حق جو شوہر کے ذمہ فرض ہے وہ حق مہر کا ادا کرنا ہے ۔ جوں ہیی نکاح ہوتا ہے شوہر کے ذمہ حق مہر ادا کرنا واجب ہو جاتا ہے ۔اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اس طرح حکم دیا ہے ۔وأتونساء صدقتہن نحلتہ۔ ایک اور آیت میں فرمایا ۔ قد علمنا ما فرضنا علیہم فی ازواجھم ۔اللہ تعالی نے حق مہر کو شوہر کے اوپر عورت کے لئے فرض قرار دیا ہے اور یہ عورت کا حق ہے ۔میرے بھائوں اللہ رب العزت ہم سب کو حق مہر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین )۔
محرم مرد کو مرنے کے بعد بھی دیکھنا جائز نہیں: ایک بے احتیاطی یہ ہوتی ہے کہ اس وقت اکثر نا۔َمحرم عورتیں بھی اس کے سامنے آکھڑی ہوتی ہیں، گویا پردہ ضروری نہیں رہتا، سو اگر اس کو اتنا ہوش ہے کہ وہ دیکھتا سمجھتا ہے تب تو اس کے سامنے آنا ایسا ہے جیسا تن درست کے سامنے آنا، مرض سے احکام معاف نہیں ہوگئے۔ اور اگر اس کو اتنا ہوش نہیں ہے تو بہت سے بہت اس نے نہ دیکھا، مگر ان عورتوں نے اس نا ۔َمحرم مرد کو بلا ضرورت دیکھا جس کی ممانعت حدیث: أَفَعَمْیَاوَانِ أَنْتُمَا أَلَسْتُمَا تُبْصِرَانِہِ (کیا تم دونوں بھی اندھی ہو؟ کیا تم دونوں اسے نہیں دیکھ رہیں؟) مصرح ہے۔ اور اگر کہا جاوے کہ اس وقت تو کسی مفسدے کا احتمال نہیں ہے، سو جواب یہ ہے کہ اوّل تو حکم عام ہے، مفسدے کی قید نہیں ہے، دوسرے ہم نے
مفسدہ بھی دیکھا، بعض عورتیں اس وقت دیکھ کر عاشق ہوگئی ہیں اور عمر بھر خیالاتِ نجس میں مبتلا رہی ہیں، گو ان کے ایقاع کی گنجایش نہیں رہی، تو اَلْعَیْنَانِ تَزْنِیَانِ (آنکھیں بھی زنا کرتی ہیں) اور اَلْقَلْبُ یَزْنِيْ تو صادق آگیا۔
اگر عورت مرتے وقت شوہر کو مہر معاف کردے تو اس کا اعتبار نہیں ہوتا: ایک کوتاہی جو نہایت عام ہے کہ جب کوئی عورت مرنے لگتی ہے، کہتے ہیں کہ ’’شوہر کو مہر معاف کردے۔‘‘ اور وہ معاف کردیتی ہے اور شوہر اس معافی کو کافی سمجھ کر اپنے کو دَینِ مہر سے سبک دوش سمجھتا ہے اور اگر کوئی وارث مانگے بھی تو نہیں دیتا اور نہ اس کا دینا ضروری سمجھتا ہے۔
سو خوب سمجھ لیا جاوے کہ اس وقت کی معافی وصیت ہے اور وصیت وارث کے حق میں نافذ نہیں ہوتی، جب تک کہ سب ورثا بلوغ بہ شرطِ بلوغ اس کو منظور نہ کریں۔ اور اگر بعض جائز رکھیں، بعض نہ رکھیں، تو صرف جائز رکھنے والوں کے حصے کے قدر نافذ ہوگی، باقی باطل ہوگی۔ اور نابالغ تو اگر جائز بھی رکھیں تو صحیح نہیں۔ پس اس صورت میں جو وارث نابالغ ہیں ان کے حصے کا مہر، اسی طرح جو بالغ وارث جائز نہ رکھیں ان کے حصے کا مہر بھی واجب الادا ہوگا اور وہ معافی ان کے حق میں محض باطل ہے۔ مثلاً: اس عورت کے وارث علاوہ شوہر کے تین بھائی ہیں، ایک نابالغ اور دو بالغ، جن میں سے ایک نے اس معافی کو منظور کیا اور دوسرے نے نامنظور کیا اور مہر چھ سو روپے تھا تو اس صورت میں یہ حکم ہوگا کہ تین سو تو حصۂ شوہری میں اگر معاف ہوگئے اور سو روپے بالغ منظور کرنے والے کے حصے میں آکر معاف ہوگئے، آگے دو سو روپےرہے، سو تو نا منظور کرنے والے کاحق اس شوہر کے ذ۔ّمہ ہے اور سو اس نابالغ کا حق اس کے ذ۔ّمہ ہے، یہ دو سو روپے ادا کرنا ہوںگے۔یہ مختصر تذکرہ ہوا حالتِ موت کے وقت کی بعض کوتاہیوںکا، اب حالت بعد الموت کے متعلق لکھا جاتاہے۔