اسلام کے چند اہم اور بنیادی عقائد ہیں جب تک انسان ان عقائد کو دل وجان سے تسلیم نہیں کرتا مسلمان نہیں ہوسکتا،ان عقائد میں سب سے پہلے توحید ہے،توحید کا مطلب ہے:لاالہ الا اللہ( اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں)وہ اپنی ذات وصفات میں اکیلا ہے، اس کے کسی معاملہ میں اور کسی مرحلہ میں کوئی شریک اور معین و مددگار نہیں، کھلانا پلانا، مارناو جِلانا، بارش وقحط ، غمی و خوشی ، مصیبت و راحت ، بیماری وصحت، غربت و دولت سب اسی کے ہاتھ میں ہے ، وہ اس وقت بھی تھا جبکہ اس عالم میں کوئی چیز نہ تھی اور اس وقت بھی رہے گا؛ جبکہ سارا عالم تباہ و برباد ہو جائے گا اور ایک بھی جاندار سانس لیتا باقی نہ رہے گا،کسی چیز میں اس کا کوئی ہمسر ونظیر نہیں ہے،دنیا کی ساری خوبیاں اسی کو زیبا اور اسی میں جمع ہیں اور وہ ہر برائی سے پاک ہے‘ ہر کمال کے ساتھ متصف اور ہر نقص و کمی سے دور ہے، اسی لیے تمام تعریفوں کی مستحق اسی کی ذات ہے،اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، جب چاہے جو فیصلہ کرے کسی کو مداخلت کی طاقت نہیں ہے۔
اللہ تعالی نے اس کائنات کے نظام میں مختلف مخلوقات کو پیدا فرمایااور ہر مخلوق کے پیدا کرنے میں اسی کی حکمت ومصلحت ہے،اسلامی عقیدہ میں اللہ کو ایک ماننے کے بعداس کی پیدا کردہ مخلوقات کے وجود کا یقین رکھنا بھی ضروری ہے،جن پر یقین رکھنا اسلامی عقیدہ میں داخل ہے وہ درج ذیل ہیں
** اللہ اور رسولﷺ “لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ“۔
(اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں (یعنی کوئی عبادت اور بندگی کے لائق نہیں)اورمحمدﷺ اس کے رسول ہیں)۔
یہی کلمہ اسلام کا دروازہ اور دین وایمان کی جڑ،بنیادہے،اس کو قبول کرکے اور اعتقاد کے ساتھ پڑھ کے عمربھرکاکافر اور مشرک بھی مومن اور مسلمان اور نجات کا مستحق ہوجاتا ہے،مگریہ شرط ہے کہ اس کلمہ میں اللہ تعالی کی توحید اور حضرت محمدﷺ کی رسالت کا جواقرار ہے اس کو اس نے سمجھ کر مانا اور قبول کیا ہو،پس اگر کوئی شخص توحید ورسالت کو بالکل بھی نہ سمجھا ہو اور بغیر معنی مطلب سمجھے اس نے یہ کلمہ پڑھ لیا ہو تو وہ اللہ کے نزدیک مومن اور مسلمان نہ ہوگا،لہذا ضروری ہے کہ ہم اس کلمہ کے معنی اور مطلب کو سمجھیں۔
اس کلمہ کے دوجزو ہیں،پہلا جز ہے “لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ” اس میں اللہ تعالی کی توحید کا اقرار ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں ہے جو عبادت اور بندگی کے لائق ہو، بس اللہ تعالی ہی کی ایک اکیلی ایسی ہستی ہے جو عبادت اور بندگی کے قابل ہے؛ کیونکہ وہی ہمارا اور سب کا خالق ومالک ہے، وہی پالنے والا اور روزی دینے والا ہے، وہی مارنے والا اوروہی زندہ کرنے والا ہے،بیماری اورتندرستی،امیر ی اور غریبی اور ہر طرح کا بناؤ، بگاڑ اور نفع نقصان صرف اسی کے قبضہ قدرت میں ہےاور اس کے سوا زمین وآسمان میں جوہستیاں ہیں خواہ انسان ہوں یا فرشتے سب اس کے بندے اور اس کے پیدا کیے ہوئے ہیں، اس کی خدائی میں کوئی اس کا شریک اور ساتھی نہیں ہے اور نہ اس کے حکموں میں الٹ پلٹ کا کسی کو اختیار ہے، اور نہ اس کے کاموں میں دخل دینے کی کسی کو مجال ہے؛ لہٰذا بس وہی اور صرف وہی اس لائق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور اسی سے لولگائی جائے اور مشکلوں اور مصیبتوں اور اپنی تمام حاجتوں میں گڑ گڑاکر اسی سے دعا اور التجا کی جائے اور وہی حقیقی مالک الملک اور احکم الحاکمین ہے،یعنی ساری دنیا کا بادشاہ ہے اور سب حاکموں سے بالاتر اور بڑا حاکم ہے؛ لہٰذا ضروری ہے کہ اس کے ہر حکم کو مانا جائے اور پوری وفاداری کے ساتھ اس کے حکموں پر چلاجائے۔
اوراس کے حکم کے مقابلہ میں کسی دوسرے کا کوئی حکم ہر گز نہ مانا جائے خواہ وہ کوئی ہو،اگرچہ اپنا باپ ہی ہو، یاحاکم وقت ہو، یابرادری کا چودھری ہو یا کوئی پیارادوست ہو،یاخود اپنے دل کی خواہش اور اپنے جی کی چاہت ہو،الغرض جب ہم نے جان لیا اور مان لیا کہ بس ایک اللہ ہی عبادت اوربندگی کے لائق ہے اور ہم صرف اسی کے بندے ہیں تو چاہئے کہ ہمارا عمل بھی اسی کے مطابق ہواوردنیاکے لوگ ہمیں دیکھ کر سمجھ لیا کریں کہ یہ صرف اللہ کے بندے ہیں،جو اللہ کے حکموں پر چلتے ہیں اور اللہ کے لیے جیتے اور مرتے ہیں۔
الغرض !
لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ ہمارااقراراور اعلان ہو ۔ لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ ہمارااعتقاداورایمان ہو ۔ لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ ہمارا عمل اورہماری شان ہو ۔
بھائیو! لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ دین کی بنیاد کی تمام باتوں میں اس کا درجہ سب سے اونچا ہے،حضورﷺ کی مشہور حدیث ہے،آپ نے فرمایا:
“ایمان کے ستر(۷۰) سے بھی اوپرشعبے ہیں اور ان میں سب سے افضل اور اعلی لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ کا قائل ہونا ہے”۔
(مسلم،باب بیان عدد شعب الایمان ،حدیث نمبر:۵۱، شاملہ، موقع الإسلام)
اسی لیے ذکروں میں بھی سب سے افضل لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ کا ذکرہے؛چنانچہ ایک دوسری حدیث میں ہے:
“اَفْضَلُ الذِّکْرِ لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ“تمام ذکروں میں افضل واعلی لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ ہے۔
(ابن ماجہ،حدیث نمبر:۳۷۹۰، شاملہ،موقع الإسلام۔ السنن الکبریٰ للنسائی،حدیث نمبر:۱۰۶۶۷، شاملہ، موقع يعسوب)
ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ایک سوال کے جواب میں فرمایاکہ:
“اے موسیٰ (علیہ السلام)!اگر ساتوں آسمان زمینیں اور جو کچھ ان میں ہے ایک پلڑے میں رکھی جائیں اور لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ دوسرے پلڑے میں،تو لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ کاپلڑا ہی بھاری رہے گا”۔
(شرح السنہ،باب ثواب التوحید:۱/۳۱۳، المؤلف:محيي السنة، أبومحمد الحسين بن مسعود البغوي(المتوفى:۵۱۰ھ)، شاملہ)
بھائیو! لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ میں فضیلت اور وزن اسی لیے ہے کہ اس میں اللہ تعالی کی توحید کا عہد واقرار ہے،یعنی صرف اسی کی عبادت وبندگی کرنے اور اسی کے حکموں پر چلنے اور اسی کو اپنا مقصودومطلوب بنانے اور اسی سے لو لگانے کا فیصلہ اور معاہدہ ہے اور یہی تو ایمان واسلام کی روح ہے اور اسی واسطے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا مسلمانوں کوحکم ہے کہ وہ اس کلمہ کو بار بار پڑھ کے اپنا ایمان تازہ کیا کریں، بہت مشہور حدیث ہے کہ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ:
“لوگو! اپنے ایمانوں کو تازہ کرتے رہا کرو،بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نےعرض کیا کہ:یارسول اللہ ہم کس طرح اپنے ایمانوں کو تازہ کیاکریں؟آپ نے فرمایا:” لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ” کثرت سے پڑھا کرو”۔
(مسند احمد ،مسند ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ،حدیث نمبر:۸۳۵۳، شاملہ،موقع الإسلام)
لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ کےپڑھنے سے ایمان کے تازہ ہونے کی وجہ یہی ہے کہ اس میں اللہ تعالی کی توحیدیعنی صرف اسی کی عبادت وبندگی اور سب سے زیادہ اسی کی فدائیت ومحبت اور اسی کی اطاعت کا عہداوراقرارہے اور جیساکہ عرض کیا گیا یہ ہی تو ایمان کی روح ہے،پس ہم جتنا بھی سمجھ کے اور دھیان کے ساتھ اس کلمہ کو پڑھیں گے یقیناً اتنا ہی ہمارا ایمان تازہ اور ہمارا عہد پختہ ہوگااور انشاء اللہ لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ پھرہمارا عمل اور ہمارا حال ہوجائے گا۔
پس بھائیو!طے کرلو کہ حضورﷺ کے حکم اور ارشاد کے مطابق ہم اس کلمہ کو دھیان کے ساتھ اور سچے دل سے کثرت کے ساتھ پڑھاکریں گے تاکہ ہمارا ایمان تازہ ہوتا رہےاور ہماری پوری زندگی لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ کےسانچے میں ڈھل جائے۔
یہاں تک کلمہ شریف کے صرف پہلے جز لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ کا بیان ہوا۔
ہمارے کلمہ کا دوسرا جزہے “مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللہ
اس میں حضرت محمدﷺ کے رسول ِخدا ہونے کا اقرار اور اعلان ہے،حضورﷺ کے رسول ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا کی ہدایت کے لیے بھیجا تھا اور آپ نے جو کچھ بتلایا اور جو خبریں دیں وہ سب صحیح اور بالکل حق ہیں،مثلاًقرآن مجیدکاخداکی طرف سے ہونا،فرشتوں کا ہونا،قیامت کاآنا،قیامت کےبعد مردوں کا پھر سے زندہ کیاجانااوراپنےاپنے اعمال کے مطابق جنت یا دوزخ میں جانا وغیرہ وغیرہ۔
الغرض حضورؐﷺ کے رسول خدا ہونے کا مطلب یہی ہے کہ آپ نے جو باتیں اس طرح کی دنیا کو بتلائی ہیں وہ خدا کی طرف سے خاص اور یقینی علم حاصل کرکے بتلائی ہیں اور وہ سب بالکل حق اور صحیح ہیں جن میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں اور اسی طرح آپ نے لوگوں کو جو ہدایتیں کیں اور جو احکام دیئے وہ سب دراصل خدا کی ہدایات اور خدائی احکام ہیں جو آپ پر وحی کئے گئے تھے، اسی سے آپ نے سمجھ لیا ہوگا کہ کسی کو رسول ماننے سے خود بخود ہی یہ لازم آجاتا ہے کہ اس کی ہر ہدایت اور ہرحکم کو مانا جائے،کیونکہ اللہ تعالی کسی کو اپنا رسول اسی واسطے بناتا ہے کہ اس کے ذریعہ اپنے بندوں کو وہ احکام بھیجے جن پر وہ بندوں کو چلانا چاہتا ہے،قرآن شریف میں فرمایا گیا ہے:
“وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِـاِذْنِ اللہِ “۔
(النساء:۶۴)
اورہم نے ہر رسول کو اسی لیے بھیجا کہ ہمارے فرمان سے اس کی اطاعت کی جائے یعنی اس کے حکموں کومانا جائے۔
الغرض رسول پر ایمان لانے اور اسکو رسول ماننے کا مقصد ومطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ اس کی ہربات کو بالکل حق مانا جائے ،اس کی تعلیم وہدایت کو خدا کی تعلیم وہدایت سمجھا جائے اور اس کے حکموں پر چلنے کا فیصلہ کرلیا جائے ؛پس اگر کوئی شخص کلمہ تو پڑھتا ہو مگر اپنے متعلق اس نے یہ طے نہ کیا ہوکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بتلائی ہوئی ہر بات کو بالکل حق اور اسکے خلاف تمام باتوں کو غلط جانوں گا اور ان کی شریعت اور ان کے حکموں پر چلوں گا،تو وہ آدمی دراصل مؤمن اور مسلمان ہی نہیں ہے اور شاید اس نے مسلمان ہونے کا مطلب ہی نہیں سمجھا ہے۔
کھلی ہوئی بات ہے کہ جب ہم نے کلمہ پڑھ کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خداکابرحق رسول مان لیا تو ہمارے لیے ضروری ہوگیا کہ اُن کے حکموں پر چلیں اور ان کی سب باتیں مانیں اور ان کی لائی ہوئی شریعت پر پورا عمل کریں۔
کلمہ شریف دراصل ایک عہداور اقرارہے
کلمہ شریف کے دونوں جز(لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ ،مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللہ)کے مطلب کی جو تشریح اور وضاحت اوپر کی گئی ہے اس سے آپ نے سمجھ لیا ہوگا کہ یہ کلمہ دراصل ایک اقرار نامہ اور عہد نامہ ہے اس بات کا کہ میں صرف اللہ تعالیٰ کو خدائے برحق اور معبودومالک مانتا ہوں اور دنیاوآخرت کی ہر چیز کو صرف اسی کے قبضہ واختیار میں سمجھتا ہوں،لہذا میں اس کی اور صرف اسی کی عبادت اور بندگی کروں گااور بندہ کو جس طرح اپنے مولاوآقاکے حکموں پر چلنا چاہئے اسی طرح میں اس کے حکموں پر چلوں گا اور ہر چیز سے زیادہ میں اس سے محبت اور تعلق رکھوں گااورحضرت محمدﷺ کو میں خدا کا برحق رسول تسلیم کرتا ہوں؛اب میں امتی کی طرح اُن کی اطاعت وپیروی کروں گا اور ان کی لائی ہوئی شریعت پر عمل کرتا رہوں گا،دراصل اسی عہدواقرارکا نام ایمان ہے اور توحید ورسالت کی شہادت دینے کا بھی یہی مقصدومطلب ہے؛ لہٰذا کلمہ پڑھنے والے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے کو اس عہد و شہادت کا پابند سمجھے اور اس کی زندگی اسی اصول کے مطابق گزرے تاکہ وہ اللہ کے نزدیک ایک سچا مومن ومسلم ہواور نجات وجنت کا حقدار ہو۔
ایسے خوش نصیبوں کے لیے بڑی بشارتیں آئی ہیں جو کلمہ شریف کے ان دونوں جز (توحیدورسالت) کو سچے دل سے قبول کریں اور دل وزبان اور عمل سے اس کی شہادت دیں۔
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“جو کوئی لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللہ کی شہادت دے تو اللہ تعالی نے دوزخ کی آگ ایسے شخص پر حرام کردی ہے”۔
(مسلم،باب الدلیل علی ان من مات علی التوحید،حدیث نمبر۴۲، شاملہ،موقع الإسلام)
بھائیو! لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ ،مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللہ کی حقیقت اور اس کے وزن کو خوب سمجھ کے دل وزبان سے اس کی شہادت دو اور فیصلہ کرلوکہ اپنی زندگی اس شہادت کے مطابق گزاریں گے تاکہ ہماری شہادت جھوٹی نہ ٹھہرے، کیونکہ اس شہادت ہی پر ہمارے ایمان واسلام کا اور ہماری نجات کا دارومدارہے پس چاہئے کہ:
لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ ،مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللہ ہمارا پکا اعتقاد وایمان ہو۔
لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ ،مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللہ ہمارا اقرارواعلان ہو۔
لاَاِلٰہ اِلاَّ اللہُ ،مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللہ ہماری زندگی کا اصول اور پوری دنیا کے لی
فرشتے
فرشتے اللہ کی مخلوقات میں سے ہیں، اللہ نے ان کو “نور” سے پیدا فرمایا ہے اور ان کے اندرکسی بھی برائی کا کوئی جذبہ نہیں رکھا ہے اور نہ ہی کھانے پینے وغیرہ کا کوئی تقاضہ ان میں رکھا ہے، ان کو ایسے جسم دیئے ہیں جو عام طورسے نظر نہیں آتے اور مختلف شکل وصورت اختیار کرسکتے ہیں،تمام فرشتوں میں سب سے افضل چار ہیں. حضرتِ جبرئیلؑ، میکائیلؑ، عزرائیلؑ، اسرافیلؑ، حضرت جبرئیل وحی کے، میکائیل روزی کے، عزرائیل موت کے اور اسرافیل صور پھونکنے کے ذمہ دار ہیں۔
بنیادی طورپر فرشتوں کی دوجماعتیں ہیں، ایک جماعت کا کام ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کی تعریف وتوصیف اور حمدوثناء میں مشغول رہنا ہے اور دوسری جماعت اللہ کے حکم دنیا کے نظام وانتظام کو دیکھتی ہے ،تعداد ان کی اتنی زیادہ ہے کہ انسان شمار نہیں کرسکتے
دنیا کے نظم ونسق کو دیکھنے وچلانے میں فرشتوں کی مختلف ٹکڑیاں ہیں مثلاً : (۱)وحی لانے والے فرشتے (۲)روح نکالنے والے فرشتے جن کو ملک الموت کہتے ہیں (۳)بادلوں کو ہنکانے اور پانی برسانے والے فرشتے
(۴)ہواکا نظم وانتظام کرنے والے
(۵)کراماًکاتبین وہ دوفرشتے جن میں سے ایک ہرانسان کے داہنے اور دوسرا بائیں کندھے پر سوار رہتا ہے، داہنے کندھے والا اس کے اچھے اعمال اور دوسرا اس کے برے اعمال لکھتا ہے
(۶)وہ فرشتے جو دس دس کی تعداد میں ہرایک انسان کے ساتھ رہتے ہیں اور اس کی جنگل کے درندوں، موذی جانوروں اور شیاطین سے حفاظت کرتے ہیں اور ہرچہارطرف اس کو گھیرے رہتے ہیں نیز اس کے بعض اعضاء کی خصوصی نگرانی رکھتے ہیں
(۷)حضورؐ کی قبرمبارک سے دوررہنے والوں کے درودوسلام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچانے والے
(۸)قبرمیں مردہ سے سوال کرنے والے
(۹)قبرمیں عذاب دینے والے
بعض مرتبہ انبیاء تک آنے والی خبریں مجموعہ کی صورت میں بطورکتاب حاصل ہوتی ہیں یا دھیرے دھیرے مجموعہ بن جاتی ہیں اور یکجا ہونے کی بناپر کتاب کی شکل اختیار کرلیتی ہیں، ایسی کتابیں آسمانی کتابیں کہلاتی ہیں، جن کی تعداد جیساکہ حضورﷺ نے ایک موقع پر فرمایا: ایک سو چار(۱۰۴)ہیں، ان میں سے پچاس صحیفے حضرت شیث علیہ السلام پر، تیس حضرت ادریس علیہ السلام پر، بیس حضرت ابراہیمؑ پر نازل ہوئے، باقی چارمیں سے توریت حضرت موسیٰ علیہ السلام پر، زبور حضرت داؤد علیہ السلام پر، انجیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر، اور سب سے آخری کتاب قرآن مجید حضورﷺ پر نازل ہوئی،۔
(ابنِ حبان،ذكر الاستحباب للمرء أن يكون له،حدیث نمبر:۳۶۱)
قرآن مجید تو ہمارے سامنے ہے، توریت اور زبور وانجیل کی تعلیمات بھی کسی نہ کسی درجہ میں موجود ہیں۔
انبیاء علیہم السلام(رسالت ونبوت)
جب انسان اللہ کے احکام پر چلنے کا پابند ومکلف ہے تو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ اس کے احکام ہیں کیا؟ کن کاموں کی اس کی طرف سے ہم کو اجازت اور کن کی ممانعت ہے؟ براہِ راست اللہ تعالیٰ ہرایک کو نہ بتاتا ہے اور نہ ہی یہ اس کے شایان شان ہے، دنیا میں چھوٹے چھوٹے عہدہ ومنصب کے لوگ ہربات عوام سے براہ راست نہیں کہتے؛ بلکہ کسی کو واسطہ بناکر کہتے ہیں، بادشاہ وسلاطین کاتو معاملہ ہی جداہے اور ان کے منصب کی عظمت کا تقاضہ بھی یہی ہے اور خود عقل ہرچیز کو بتانہیں سکتی اور اگر بتائے تو سب کا اتفاق ضروری نہیں جیساکہ دنیوی امور میں ہوتاہی رہتا ہے، خواہ کیسے ہی پختہ عقل وتجربہ کار افراد جمع ہوں، نیز یہ کہ محض عقل کی مددسے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ یقینی نہیں ہوسکتا؛ وہم واندازہ اور زیادہ سے زیادہ گمان غالب کی حدتک ہوتا ہے۔
لہٰذا اللہ کے احکام وہدایات حاصل کرنے کے لیے کسی دوسرے ہی ذریعہ کی ضرورت ہے جو اپنے اندر یقین واطمینان رکھتاہو، اللہ نے نبوت ورسالت کے منصب کے ذریعہ اسی ضرورت کو پورا فرمایا ہے، نبوت ورسالت اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان ایک واسطہ ہے اور محض بندوں کی ضرورت کی چیزہے جیسے کہ دوسری فطری ضرورتیں ہیں ؛بلکہ ان سب سے اہم ہے اس لیے کہ اسی کے ذریعہ ہماری پیدائش کے مقصود کی تکمیل ہوتی ہے،الغرض!انسانوں کی ہدایت کے لیے اللہ رب العزت نے کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاءؑ کو اس دنیا میں بھیجا، سب سے پہلے حضرت آدم علیہ ا لسلام اور سب سے آخرمیں ہمارے نبی حضرت محمدﷺ کو مبعوث فرمایاآخرت
جن حقیقتوں پر ہمارے لیے ایمان لانا ضروری ہے ان میں سے آخرت بھی ہے، قرآن وحدیث میں بکثرت اللہ پر ایمان کے ساتھ آخرت پر ایمان کا ذکر ہے، آپ قرآن مجید کھولیں تو سورہ بقرہ کے پہلے ہی رکوع میں ہے: “وَبِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ یُوْقِنُوْنَ”
(اور آخرت پربھی وہ لوگ یقین رکھتے ہیں)۔
آخرت پر ایمان لانے کا مطلب اس بات کا یقین ہے کہ ایک دن اس عالم رنگ وبوکی موجودہ شکل وصورت کا آخری دن ہوگا، اس دن یہ عالم ختم ہوجائے گا، اس کی ایک ایک چیز فنا ہوجائے گی؛ حتی کہ آسمان وزمین کی موجودہ حالت وحقیقت بھی بدل جائے گی اور پھر ایک نئی دنیا وجود میں آئے گی، حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اس دن کی آخری گھڑی تک کے ہرانسان کو پھرسے جسم وروح کے ساتھ زندگی بخشی جائے گی اور سب کی اللہ کے سامنے پیشی ہوگی، دنیا میں ملی ہوئی زندگی میں کیا گیا بھلاوبُرا سب سامنے آئے گا اور اسی کے مطابق اللہ کی جانب سے جزاوسزا، ثواب وعقاب، رضاوناراضگی کا معاملہ ہوگا۔
دراصل یہ عقیدہ ہی انسان کو برائیوں سے روکتا اور بھلائیوں پر آمادہ ومجبور کرتا ہے،حکومت کاقانون بھی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا اس لیے کہ یہ معلوم ہے کہ حکومت کی سزا کیسی ہی سخت ہو وقتی وعارضی ہوتی ہے اور یہ ہمیشہ کی اور سخت ترین سزا ہوتی ہے اور مشاہدہ وتجربہ بھی یہی ہے کہ اس یقین کے حامل لوگ ہی پاکیزہ زندگی گزارتے ہیں
تقدیر
تقدیر کے لغوی معنی ہیں اندازہ لگانا، طے کرنا، شرعاً اس کا مفہوم یہ ہے کہ دنیا میں جوکچھ ہورہا ہے، ہرلمحہ وہرگھڑی سامنے آرہا ہے، یہ سب جیسے اللہ کی مشیت یعنی اس کے چاہنے سے ہورہا ہے، ایسے ہی دنیا کی پیدائش سے ہزارہا سال پہلے اللہ کی جانب سے اس کے طے کردینے اور طے کرکے لوح محفوظ میں لکھادینے کے مطابق ہورہا ہے، موت وزندگی، عزت وذلت، غربت ودولت، صحت وبیماری، سعادت وبدبختی، ہدایت وگمراہی تمام چیزیں اس کی جانب سے طے شدہ ہیں، سرسری طورپر اس مسئلہ کو دیکھنے میں آدمی الجھ جاتا ہے، بہک جاتا ہے، اسی لیے یہ مسئلہ شریعت کا نہایت نازک مسئلہ ہے، اور اس کی زیادہ کھودوکرید اور اس میں غوروفکر ناپسندیدہ ومنع ہے، بس یہ اعتقاد رکھنا چاہئے کہ اللہ کی جانب سے ایساہی طے ہے، انسان کے دل میں یہ خیال واعتقاد جتنا بس جائے اسے اتناہی سکون واطمینان حاصل ہوتا ہے کہ ہم اللہ کے بندے ہیں اور یہ حالات اسی کی جانب سے آرہے ہیں۔
آپ مختصراً یوں سمجھ لیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے سارے نظام کائنات کو دوحصوں میں تقسیم کررکھا ہے، ایک حصہ وہ ہے جو محض اس کے کرنے سے اور فرشتوں کے واسطے سے انجام پارہا ہے، انسانوں کا اس میں کوئی دخل نہیں، جیسے ہواؤں کا چلنا، بارش ہونا، پھل وپھول کا اگنا، تمام مخلوقات کی پیدائش وغیرہ۔
دوسرا حصہ وہ ہے جس کو انسانوں سے متعلق کررکھا ہے یعنی انسانی اعمال جنہیں انسان اپنے ہاتھ وپیر ودیگر اعضاء سے کرتا ہے، دل میں ان کے کرنے یا نہ کرنے کا میلان پاتاہے، نفس وضمیر اس سے ان کے کرنے یا نہ کرنے پر ابھارتے وآمادہ کرتے ہیں۔ بہرحال تقدیر یہ ہے کہ دنیا میں جوکچھ ہونا ہے اللہ نے پہلے سے طے فرمادیا ہے، کوئی بھی انسان جب دنیا میں پیدا ہوتا ہے تو اس کا کھاناپینا، عمروموت سب طے شدہ ہوتی ہے اور تقدیرمیں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی، البتہ اللہ نے تقدیر کے دوحصے رکھے ہیں، ایک کو تقدیر مُعَلَّقْ اور دوسرے کو تقدیر مبرم کہتے ہیں، تقدیرِمعلّق کا مطلب ہے ایسی تقدیر جو کسی چیزپر موقوف ہوتی ہے کہ اس کے ہونے نہ ہونے سے اس میں تبدیلی ہوجاتی ہے، جیسے کہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اگر نیکی کا عادی ہوتو اس کی عمر بڑھادی جاتی ہے اور “تقدیرِمُبْرَم” جوبالکل قطعی ہے اور اس میں کسی وجہ سے کوئی تبدیلی نہیں کی جاتی۔
قرآن پاک اور حضورﷺ کی احادیث میں ذکرکردہ تفصیلات کے مطابق انسانی زندگی کے چارمراحل ہیں، پہلا مرحلہ عالم ارواح جہاں وہ ماں کے پیٹ میں آنے سے پہلے تک رہتا ہے، دوسرا مرحلہ عالم اجسام یعنی یہ دنیا جہاں وہ ماں کے پیٹ میں آنے کے بعدسے موت تک، تیسرا مرحلہ عالم برزخ یعنی دنیا وآخرت کے درمیان کا عالم جہاں اسے موت سے لے کر قیامت آنے تک رہنا ہے، چوتھا مرحلہ عالم قیامت جو اس عالم کے فناہونے پر شروع ہوگا اور پھر کبھی ختم نہ ہوگا۔
عالمِ ارواح میں صرف روح ہوتی ہے، عالمِ اجسام میں روح کے ساتھ جسم بھی ہوتا ہے، عالم برزخ میں محققین کے قول کے مطابق عام لوگوں کی محض روح ہوتی ہے اور جسم ختم ہوجاتا ہے، ہاں خاص خاص بندوں کے جسم بھی محفوظ رہتے ہیں، جیسے انبیاء، اولیاء، شہداء، عالم آخرت میں پھر روح وجسم دونوں جمع ہوجائیں گے مگر دنیا وآخرت کے جسم میں فرق یہ ہے کہ دنیا کا جسم مختلف چیزوں سے متاثر ہوتا ہے اوربالآخر مٹ جاتا ہے، سڑوگل جاتا ہے اور آخرت کا جسم کبھی نہ بدلے گا اور نہ ہی ختم ہوگا۔
عالم برزخ کوہی قبرکی زندگی کہتے ہیں، اس زندگی کا حاصل یہ ہے کہ اس دنیا میں کئے گئے اعمال کے مطابق آخرت میں انسان کے ساتھ جو معاملہ ہوتا ہے اس کا ہلکاسا نمونہ وسلسلہ قبرسے ہی شروع ہوجاتا ہے، اسی لیے حضورﷺ نے فرمایا ہے، قبر جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا یا جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے۔
(ترمذی، بَاب مَاجَاءَ فِي صِفَةِ أَوَانِي الْحَوْض،حدیث نمبر:۲۳۸۴)
قیامت کی علامات اور حالات
ہرقسم کے گناہوں کی کثرت، طاعات میں رغبت کی کمی،حضرت مہدی کا آنا، مہدی ان کا لقب ہوگا، ان کا اور ان کے والدین کا نام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین جیسا ہوگا، نیز صورت وسیرت بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتی جلتی ہوگی جو تمام مسلمانوں کے سربراہ ہوں گے اور باطل کے خلاف جہاد کریں گے، اسی بیچ دجال نکلے گا اور پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے دنیا میں تشریف لائیں گے، حضورؐ نے فرمایا ہے کہ شام کے مشہور شہر دمشق میں دوفرشتوں کے مونڈھوں پر ہاتھ رکھے اتریں گے، قیامت کے قریب ان کی آمد کا ذکر بہت سی احادیث میں ہے، اس لیے اس کا ماننا ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے، دجال کو قتل کریں گے، دنیا سے شریعت محمدی کے علاوہ تمام دینوں کومٹادیں گے، ان کے زمانے میں سارے عیسائی مسلمان ہوجائیں گے۔
وہ باحیات ہی ہوں گے کہ “یاجوج وماجوج” نامی دوقومیں ظاہر ہوں گی جن کو حضرت ذوالقرنین نے دنیا کے کسی حصے میں قید کردیا تھا وہ نکلیں گے، اور بہت بڑی تعداد میں ہوں گے، ان کا تھوڑاساہی حصہ پورے دریا کا پانی پی جائے گا، ساری دنیا کو تباہ وبرباد کریں گے، مسلمان ایک پہاڑپر پناہ لے کر ان سے محفوظ رہیں گے، آخروہ سب ایک آسمانی بلاکا شکار ہوکر مریں گے۔
ایک جانور نکلے گا جو ایک انگوٹھی اور ڈنڈالیے ہوگا اور ہرمسلمان وکافر کے جسم پر انگوٹھی وڈنڈے سے نشان لگائے گا، قیامت سے ایک سوبیس برس پہلے سورج بجائےپورب سے نکلنے کے پچھم سے نکلے گا اور پھر اہل ایمان ختم ہوجائیں گے حتی کہ زمین پر ایک بھی اللہ کا نام لینے والا نہ رہ جائے گا، نہایت شریر وبدکردار لوگ ہوں گے اور اچانک قیامت آجائے گی، جن کے حالات قرآن مجید کی مختلف سورتوں اوراحادیث میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں۔
Qiyamat ka Aqida
قیامت ایسا اچانک آئے گی کہ کسی کام کرنے والے کو اپنا کام پورا کرنے کا موقع نہ مل سکے گا، ایک مرتبہ صور پھونکا جائے گا تو سارے انسان وجاندار مرجائیں گے اور سارا نظام عالم درہم برہم ہوجائے گا، آسمان پھٹ جائیں گے، تارے جھڑجائیں گے، سورج وچاند بے نور ہوجائیں گے، پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑیں گے، زمین بالکل ہموار وبرابر کردی جائے گی، پھر دوسری مرتبہ صور پھونکا جائے گا اور ساتھ ہی آسمان سے مانند شبنم ہلکی ہلکی بارش ہوگی تو تمام انسان زندہ ہوکر قبروں سے نکل جائیں گے،میدان حشرمیں جمع ہوجانے کے بعد پوچھ گچھ میں دیرہونے سے لوگوں کی پریشانی بڑھتی ہی جائے گی حتی کہ لوگ انبیاء کرام سے سفارش کو کہیں گے، بڑے بڑے انبیاء کے پاس جائیں گے اور سب معذرت کردیں گے، آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی اجازت سے سفارش فرمائیں گے، یہ سفارش آپﷺ کاہی امتیاز ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش کے بعد حساب کتاب شروع ہوگا۔
میدانِ حشر میں فیصلہ سنانے کے بعد جب لوگ روانہ ہوں گے تو سامنے ایک پل آئے گا، کافرتو اس کے نیچے ہی رہ جائیں گے کہ نیچے ہی جہنم ہوگی، سیدھے وہاں پہنچادیئے جائیں گے اور مومن پل کے اوپرسے گزریں گے، ہرایک اپنے اپنے عمل کے مطابق کوئی سواری پر، کوئی پیدل، کوئی نہایت تیز اور کوئی گرتاپڑتا اس میں بھی بدعمل جن کی معافی نہ ہوگی وہ جہنم میں گرجائیں گے اور بعدمیں سفارش اور اللہ کے فضل کی بدولت نکالے جائیں گے ۔
جنت:
جنت کے معنی ہیں باغ، چونکہ عالم آخرت میں اللہ نے اپنے نیک بندوں کے لیے جو جگہ تجویز فرمائی ہے اس میں بکثرت باغات ہوں گے اس لیے اس کو “جنت” کا نام دیا گیا، اور “جہنم” دہکتی ہوئی آگ، یہ دونوں چیزیں پیدا کی جاچکی ہیں، قرآن مجید میں ایک موقع پر آیا ہے، کوئی شخص نہیں جانتاکہ اس کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا کیا سامان پوشیدہ کرکے رکھا گیا ہے(السجدہ:۱۷) اور ایک حدیث میں حضورﷺ نے اللہ تعالیٰ کا ارشاد نقل کیا ہے “وہاں وہ نعمتیں ہیں کہ جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی دل میں ان کا خیال آیا”۔
(بخاری، بَاب مَا جَاءَ فِي صِفَةِ الْجَنَّةِ،حدیث نمبر:۳۰۰۵)
راحت وآسائش، لطف ولذت کی اعلیٰ سے اعلیٰ چیزیں جو ہمیں سمجھانے کے لیے دنیا کی چیزوں کے نام سے بیان کی گئی ہیں، جنت میں ہیں؛ بلکہ ان سے کہیں بڑھ کر۔
خلاصہ یہ کہ وہ ایسی آرام کی جگہ ہوگی کہ ایک انسان جس نے دنیا میں ساری زندگی مشقتوں اور تکلیفوں میں گزاری ہوگی اسے صرف ایک مرتبہ جنت میں غوطہ سا دےکر نکال لیا جائے گا اور دنیا کی سالہاسال کی تکلیفیں بھول جائے گا۔
جہنم
اللہ کے غیظ وغضب اور اس کی ناگواری کے اظہار کا ذریعہ وجگہ، جو ان لوگوں کے لیےدائمی قیامگاہ کے طورپربنائی گئی ہے، جنہوں نے دنیامیں اپنی عمر اللہ کی نافرمانی ہی نہیں بلکہ مخالفت میں گزاری اور نہ صرف یہ کہ اس کی خدائی کو تسلیم نہیں کیا؛ بلکہ خدائی میں دوسروں کو شریک بنایا، جس طرح جنت میں اعلیٰ سے اعلیٰ نعمتیں ہوں گی جو تصور میں نہیں آسکتیں، ایسے ہی جہنم کی سزاؤں وعذاب کی سختی کابھی صحیح اندازہ یہاں مشکل ہے، جہنم محض آگ ہی آگ ہے جو ہزارہاسال سے روشن ہے اور دن بدن اس کی تیزی بڑھتی ہی جاتی ہے، آگ جلتے جلتے اب سیاہ وتاریک ہوچکی ہے، ایندھن بھی دنیا کی طرح لکڑیاں نہ ہوں گی؛ بلکہ انسان، پتھر، گندھک اور بت وغیرہ، بڑی تعداد میں انسان جہنم میں جائیں گے، سب کے چہرے سیاہ، جسم کا ایک ایک حصہ نہایت بڑا حتی کہ اکثر اعضاء کھال وزبان وغیرہ میلوں لمبی کردی جائیں گی، سب سے ہلکا عذاب یہ ہوگا کہ آگ کی جوتیاں پہنادی جائیں گی مگر ان کا اتنا اثر ہوگاکہ ان کی وجہ سے انسان کا دماغ کھولے گا، خلاصہ یہ ہے کہ وہ ایسی تکلیف کی جگہ ہوگی کہ ایک آدمی جس نے دنیا میں ساری زندگی بڑی راحت اور عیش وآرام میں گزاری ہوگی اسے جہنم میں ایک غوطہ دے کر نکال لیا جائے گا اور وہ اس سالہاسال کی راحت وآرام کو بھلابیٹھے گا اور کہے گا کہ میں نے تو کبھی آرام دیکھا ہی نہیں
مرنے کے بعد
برزخ(قبر)،قیامت،آخرت
اتنی بات توسب جانتے اورمانتے ہیں کہ جو اس دنیا میں پیدا ہوا اس کو کسی نہ کسی دن مرنا ضرورہے؛لیکن اپنے طورسے یہ بات کسی کو بھی معلوم نہیں اور نہ کوئی اس کو معلوم کرسکتا ہے کہ مرنے کے بعد کیاہوتا ہے اورکیاہوگا یہ بات صرف اللہ ہی کو معلوم ہے اور اس کے بتلانے سے پیغمبروں کو معلوم ہوتی ہے اور ان کے بتلانے سے ہم جیسے عام آدمیوں کو بھی معلوم ہوجاتی ہے،اللہ کے ہرپیغمبر نے اپنے اپنے وقت میں اپنی قوم اوراپنی امت کو خوب اچھی طرح بتلایااورجتلایاتھاکہ مرنےکے بعد کن کن منزلوں سے تم کو گزرنا ہوگا اور دنیا میں کئے ہوئے تمہارے اعمال کی جزا اورسزا ہر منزل میں تمہیں کس طرح ملے گی اورپیغمبر خداسیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ خداکے آخری نبی اوررسول ہیں اوران کے بعد اب کوئی پیغمبر قیامت تک آنے والا نہیں ہے اس لیے آپ نے مرنے کے بعد کی تمام منزلوں کا بیان بہت ہی تفصیل اور تشریح سے فرمایا ہے اگر اس سب کو جمع کیا جائے تو ایک بہت بڑا دفتر تیار ہوسکتا ہے۔
قرآن شریف میں اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں میں جو کچھ اس سلسلہ میں بیان فرمایاگیا ہے اس کامختصر خلاصہ یہ ہے کہ: مرنے کے بعد تین منزلیں آنے والی ہیں:پہلی منزل مرنے کے وقت سے لے کر قیامت آنے تک کی ہے،اس کو عالم برزخ کہتے ہیں،مرنے کے بعد آدمی کا جسم چاہے زمین میں دفن کردیا جائے،چاہے دریا میں بہادیاجائے چاہے جلاکر راکھ کردیاجائے،لیکن اس کی روح کسی صورت میں بھی فنا نہیں ہوتی،صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ ہماری اس دنیا سے منتقل ہوکر ایک دوسرے عالم میں چلی جاتی ہے ،وہاں اللہ کے فرشتے اس کے دین ومذہب کے متعلق اس سے کچھ سوالات کرتے ہیں وہ اگر سچا ایمان والا ہے تو صحیح صحیح جواب دے دیتا ہے جس پر فرشتے اس کو خوش خبری سنادیتے ہیں،کہ توقیامت تک چین وآرام سے رہ اور اگروہ مومن نہیں ہوتا بلکہ کافر، یا صرف نام کا مسلمان منافق ہوتا ہے تواسی وقت سے سخت عذاب اوردکھ میں مبتلاکردیا جاتا ہے جس کا سلسلہ قیامت تک جاری رہتا ہے،یہی برزخ کی منزل ہے،جس کا زمانہ مرنے کے وقت سے لیکر قیامت تک کا ہے
اس کے بعد دوسری منزل قیامت اورحشر کی ہے،قیامت کا مطلب یہ ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ اللہ کے حکم سے یہ ساری دنیا ایک دم فنا کردی جائے گی(یعنی جس طرح سخت قسم کے زلزلوں سے علاقے کے علاقے ختم ہوجاتے ہیں؛اسی طرح سے اس وقت ساری دنیا درہم برہم ہوجائے گی اور سب چیزوں پر ایک دم فنا آجائیگی) پھر عرصہ درازکے بعداللہ تعالی جب چاہے گا سب انسانوں کو پھر سے زندہ کرے گا،اس وقت ساری دنیا کے اگلے پچھلے سب انسان دوبارہ زندہ ہوجائیں گے اور ان کی دنیوی زندگیوں کا پورا حساب ہوگا، اس جانچ اورحساب میں اللہ کے جوبندے نجات اورجنت کے مستحق نکلیں گے ان کے لیے جنت کا حکم دےدیا جائیگااور جو ظالم اورمجرم اللہ کے عذاب اوردوزخ کے سزاوارہوں گے،ان کے لیے دوزخ کا حکم سنادیاجائے گا،یہ منزل مرنے کے بعد کی دوسری منزل ہے،جس کا نام قیامت اورحشر ہے؛ اس کے بعد جنتی ہمیشہ ہمیشہ کےلیے جنت میں چلے جائیں گے ،جہاں صرف آرام اورچین ہوگا اور ایسی لذتیں اورراحتیں ہوں گی جو اس دنیا میں کسی نے دیکھی سنی نہ ہوں گی اور دوزخی دوزخ میں ڈال دیئے جائیں گے جہاں ان کو بڑے سخت قسم کے عذاب اوردکھ ہوں گے اللہ ہم سب کو اس سے اپنی پناہ میں رکھے۔
یہ دوزخ اورجنت ہی مرنے کے بعد کی تیسری اورآخری منزل ہےاورپھر لوگ ہمیشہ ہمیشہ اپنے اعمال کے مطابق جنت یا دوزخ ہی میں رہیں گے,مرنے کے بعد کے متعلق اللہ کےپیغمبروں نے اور خاص طور سے آخری پیغمبر سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ بتلایا ہے اور قرآن وحدیث میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اس کا خلاصہ یہی ہے جو اوپر ذکرکیاگیا اب چندآیتیں اورحدیثیں بھی سن لیجئے۔
“کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ”۔
(آل عمران:۱۸۵)
ہرجان کو موت کا مزاچکھنا ہے،پھر تم سب ہماری طرف لوٹوگے۔
“کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ”۔
(آل عمران:۱۸۵)
ہرجان کو موت کا مزاچکھنا ہےاور تمہارے اعمال کے بدلے قیامت کے دن پورے پورے دئے جائیں گے۔
قیامت اوراسکی ہولناکیوں کاذکرقرآن شریف میں سیکڑوں جگہ کیاگیا ہے،چندایتیں ہم یہاں بھی نقل کرتے ہیں:
“یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ o اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْءٌ عَظِیْمٌoیَوْمَ تَرَوْنَہَا تَذْہَلُ کُلُّ مُرْضِعَۃٍ عَمَّآ اَرْضَعَتْ وَتَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَہَا وَتَرَى النَّاسَ سُکٰرٰی وَمَا ہُمْ بِسُکٰرٰی وَلٰکِنَّ عَذَابَ اللہِ شَدِیْدٌ”۔
(الحج،۱۔۲)
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو،قیامت کا بھونچال بڑی(خوفناک)چیزہے جس دن تم اسے دیکھوگے اس دن ہر دودھ پلانے والی ماں اپنے دودھ پیتے پیارے بچے کو بھول جائے گی اورحمل والیوں کے حمل ساقط ہوجائیں گی اورتم دیکھوگے سب لوگوں کو نشہ کی سی حالت میں اورحقیقت میں وہ نشہ میں نہ ہوں گے،بلکہ اللہ کا عذاب بڑاسخت ہے(بس اس کی دہشت سے لوگ بے ہوش ہوجائیں گے)۔
اورسورۂ مزمل میں قیامت ہی کےبیان میں فرمایا گیا:
“یَوْمَ تَرْجُفُ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ وَکَانَتِ الْجِبَالُ کَثِیْبًا مَّہِیْلًا”۔
(المزمل:۱۴)
جب زمینوں اورپہاڑوں پر لرزہ ہوگا اورپہاڑ بہتی ریت کی طرح ہوجائیں گے۔
اور اسی سورۃمیں قیامت ہی کے متعلق فرمایاگیا ہے
“یَوْمًا یَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْبَا”۔
(المزمل:۱۴)
وہ دن بچوں کو بوڑھا بنادے گا۔
اورسورہ ٔعبس میں ارشاد ہے: “فَاِذَا جَاءَتِ الصَّاخَّۃُoیَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْہِoوَاُمِّہٖ وَاَبِیْہِo وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِoلِکُلِّ امْرِیٍٔ مِّنْہُمْ یَوْمَئِذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْہِoوُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ مُّسْفِرَۃٌoضَاحِکَۃٌ مُّسْتَبْشِرَۃٌo وَوُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ عَلَیْہَا غَبَرَۃٌoتَرْہَقُہَا قَتَرَۃٌ”۔
(عبس:۲۳)
جب آئے گی کانوں کے پردے پھاڑنے والی وہ آواز(یعنی جس وقت قیامت کا صور پھونکاجائے گا) اس دن بھاگے گا آدمی اپنے بھائی سے اوراپنی ماں اوراپنے باپ سے اور اپنی بیوی اوراپنی اولاد سے،ان میں سے ہرایک کے لیے اس دن فکر ہوگی ،جو اسکو دوسروں سے بے پروابنادے گی(یعنی ہر ایک اپنی فکر میں ایساڈوباہوگا کہ ماں ،باپ،بیوی،اولاداوربہن بھائی کی بالکل پروانہ کرے گا بلکہ ان سے بھاگے گا) بہت سے چہرے اس دن روشن ہوں گے ہنستے ہوئے خوشی سے کھلے ہوئے اوربہت سے منھ اس دن خاک میں اٹے ہوں گے اور ان پر سیاہی چھائی ہوگی۔
قیامت کے دن سب انسان خدا کے سامنے حاضر ہوں گے،کوئی بھی کہیں چھپ نہیں سکے گا،سورۂ الحاقۃ میں ارشاد ہے:
“یَوْمَئِذٍ تُعْرَضُوْنَ لَا تَخْفٰى مِنْکُمْ خَافِیَۃٌ“۔
(الحاقہ :۱۸)
اس دن تم سب خداکے سامنے پیش کئے جاؤ گے تم میں سے کوئی چھپنے والا چھپ نہیں سکے گا۔
اور سورہ کہف میں ارشاد ہے: “وَیَوْمَ نُسَیِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَى الْاَرْضَ بَارِزَۃًo وَّحَشَرْنٰہُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْہُمْ اَحَدًاoوَعُرِضُوْا عَلٰی رَبِّکَ صَفًّاo لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا کَـمَا خَلَقْنٰکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍoبَلْ زَعَمْتُمْ اَلَّنْ نَّجْعَلَ لَکُمْ مَّوْعِدًاo وَوُضِـعَ الْکِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْہِ وَیَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ ہٰذَا الْکِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَۃً وَّلَا کَبِیْرَۃً اِلَّآ اَحْصٰىہَاo وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًاoوَلَا یَظْلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا”۔
(الکہف:۴۹) اس دن ہم پہاڑوں کو ہٹادیں گے(یعنی پہاڑاپنی جگہ قائم نہ رہ سکیں گے بلکہ وہ گرجائیں گے اورریزہ ریزہ ہوجائیں گے)اور تم دیکھو گے زمین کو کھلی ہوئی(یعنی نہ اس میں شہر رہیں گے نہ بستیاں نہ باغات بلکہ ساری زمین ایک کھلا میدان ہو جائے گی) اور پھر ہم سب انسانوں کو دوبارہ زندہ کریں گے اور ان میں سے ایک کوبھی نہ چھوڑیں گے اور وہ سب قطاردرقطاراپنے رب کے سامنے پیش کئے جائیں گے(اوران سے کہا جائے گا دیکھو) تم دوبارہ زندہ ہوکر ہمارے پاس آگئے جیسا کہ ہم نے پہلی مرتبہ تم کوپیدا کیاتھا،بلکہ تم یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم تمہارے لیے کوئی وقت موعود نہیں لائیں گے اور ان کا اعمال نامہ(جس میں ان کے تمام اچھے برے اعمال کی تفصیل ہوگی)سامنے رکھ دیا جائے گا اور تم دیکھو گے مجرموں کو ڈرتا ہوااس اعمال نامہ سے کہتے ہوں گے ہائے ہماری کم بختی اس اعمال نامہ کی عجیب حالت ہے،نہ اس نے ہماراکوئی چھوٹاعمل چھوڑا ہے نہ بڑا عمل سب ہی کریہ بتلاتا ہےاورجوکچھ انہوں نے دنیا میں کیا تھا اس سب کو موجود پائیں گے اور ظلم نہیں کرے گا تمہارا پروردگا کسی پر۔
قیامت میں انسان کے ہاتھ پاؤں اور اس کے تمام اعضاء بھی اس کے اعمال کی گواہی دیں گے،سورہ یسین میں ارشاد ہے:
” اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓی اَفْوَاہِہِمْ وَتُکَلِّمُنَآ اَیْدِیْہِمْ وَتَشْہَدُ اَرْجُلُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ“۔
(یٰسٰ:۶۵)
آج کے دن ہم ان کے منھ پر مہر لگادیں گے اور ان کے ہاتھ پاؤں بولیں گے اور گواہی دیں گے اس کی جووہ کیاکرتے تھے۔
الغرض قیامت میں جو کچھ ہوگا قرآن شریف نے بڑی تفصیل سے اس سب کو بیان فرمایاہے،یعنی پہلے زلزلوں اوردھماکوں کا ہونا،پھر سب دنیا کا فنا ہوجانا،حتیٰ کہ پہاڑوں کا بھی ریزہ ریزہ ہوجانا، پھر سب انسانوں کا زندہ کیاجانا پھر حساب کے لیے میدان حشر میں حاضر ہونا اوروہاں ہر ایک کے سامنے اس کے اعمالنامہ کا آنااورخود انسان کے اعضاء کا اس کے خلاف گواہی دینا اور پھر ثواب یا عذاب یا معانی کا فیصلہ ہونا اور اس کے بعد لوگوں کا جنت یا دوزخ میں جانا،یہ سب چیزیں قرآن شریف کی بعض سورتوں میں ایسی تفصیل سےبیان کی گئی ہیں کہ ان کے پڑھنے سے قیامت کا سماں آنکھوں کے سامنے کھنچ جاتا ہے چنانچہ ایک حدیث میں بھی آیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“جوشخص چاہے کہ قیامت کا منظر اس طرح دیکھے کہ گویاوہ اس کی آنکھوں کےسامنے ہے،تووہ قرآن شریف کی سورتیں:” اِذَاالشَّمْسُ کُوِّرَتْ oاِذَا السَّمَاءُ انْفَطَرَتْ oاِذَاالسَّمَاءُ انْشَقَّتْ o پڑھے”۔
(ترمذی،الباب ومن سورۃ اذا الشمس کورت،حدیث نمبر:۳۲۵۶ ، شاملہ، موقع الإسلام)
اب ہم برزخ اورقیامت کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چند حدیثیں بھی ذکر کرتے ہیں ،حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
“تم میں سے کوئی جب مرجاتا ہے تو اس کو جومقام قیامت کے بعد جنت یا دوزخ میں(اپنے اعمال کے لحاظ سے) ملنے والا ہوتا ہے وہ ہر صبح شام اس پر پیش کیاجاتا ہے اور اس سے کہاجاتا ہے کہ یہ ہے تیرا ٹھکانا جہاں تجھے پہونچنا ہے”۔
(بخاری،بَاب مَا جَاءَ فِي صِفَةِ الْجَنَّةِ،حدیث نمبر:۳۰۰۱ ، شاملہ، موقع الإسلام)
ایک اور حدیث میں ہے کہ:
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ وعظ میں قبر (یعنی عالم برزخ)کی آزمائش اوروہاں کے احوال کاذکرفرمایاتو تمام مسلمان جوحاضر تھے چیخ اٹھے۔”
(بخاری،بَاب مَا جَاءَ فِي عَذَابِ الْقَبْر،حدیث نمبر:۱۲۸۴ ، شاملہ، موقع الإسلام)
بہت سی حدیثوں میں قبر کے احوال اورسوال وجواب اورپھروہاں کے عذاب کا تفصیل سےبھی ذکرآیا ہے،یہاں ہم اختصار کی وجہ سے صرف انہی دوحدیثوں کے ذکر پر بس کرتے ہیں،اب چند حدیثیں قیامت کے متعلق اورسن لیجئے،ایک حدیث میں ہے،رسول اللہﷺ نے قیامت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ:
“جب اللہ کے حکم سے قیامت کا پہلا صور پھونکا جائے گا تو تمام لوگ بے ہوش اوربے جان ہوکر گرجائیں گے،پھر جب دوسری مرتبہ صور پھونکا جائے گا تو سب زندہ ہوکر کھڑے ہو جائیں گے،پھر حکم ہوگا کہ تم سب اپنے رب کے سامنے حاضری کے لیے چلواورپھر فرشتوں کو حکم ہوگا کہ ان کو ٹہراکر کھڑاکرو،یہاں ان سے ان کی زندگی کے متعلق پوچھ ہوگی”۔
(مسلم،باب فی خروج الدجال ومکثہ فی الارض،حدیث نمبر:۵۲۲۳، شاملہ، موقع الإسلام) ایک اورحدیث میں ہےکہ:
“ایک صحابی نے حضورﷺ سے دریافت کیا یا رسول اللہ!اللہ تعالی اپنی مخلوق کو دوبارہ کیسے زندہ کرے گا اورکیا اس دنیا میں اس کی کوئی نشانی اورمثال ہے؟ آپ نے فرمایا:کیا کبھی ایسا نہیں ہوا کہ تم اپنی قوم کی کسی زمین پر ایسی حالت میں گزرے ہوکہ وہ سوکھی،سبزے سے خالی ہو اورپھردوبارہ ایسی حالت میں اس پر تمہارا گزرہو کہ وہ ہری بھری لہلہارہی ہو؟(صحابی کہتے ہیں) میں نے عرض کیا:ہاں!ایسا ہوا ہے،آپ نے فرمایاکہ:دوبارہ زندہ کرنے کی یہی نشانی اورمثال ہے،ایسے ہی اللہ تعالی مردوں کو دوبارہ زندہ کردے گا”۔
(مشکاۃ المصابیح، كتاب أحوال القيامة وبدء الخلق، باب النفخ في الصور، حدیث نمبر:۵۵۳۱، الناشر:المكتب الإسلامي، بيروت)
ایک اورحدیث میں ہےکہ:
“رسول اللہﷺ نے قرآن شریف کی یہ آیت پڑھی:یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَھَا(قیامت کے دن زمین اپنی سب خبریں بیان کرے گی)پھر آپ نے فرمایا:تم سمجھے اس کا کیا مطلب ہے؟صحابہ نے عرض کیا:اللہ اوراس کے رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں،آپ نے فرمایا:اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن زمین اللہ کے ہر بندہ پر اور ہر بندی پر گواہی دے گی ان اعمال کی جو انہوں نے زمین پر کیے ہوں گے،یعنی اللہ کے حکم سے زمین اس دن بولے گی اور بتلائے گی کہ فلاں بندے نے یا فلاں بندی نے فلاں دن میرے اوپر عمل کیا تھا”۔
(ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي الْعَرْضِ ،حدیث نمبر۲۳۵۳، شاملہ، موقع الإسلام)
ایک اورحدیث میں ہےکہ:
“آپ نے قیامت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایاکہ:اللہ تعالی قیامت کے دن بندے سے فرمائے گا آج تو خود ہی اپنےاوپر گواہ ہےاورمیرے لکھنے والے فرشتے بھی موجود ہیں اور بس یہی گواہیاں کافی ہیں؛پھرایساہوگا کہ اللہ کے حکم سے بندے کے منہ پر مہر لگ جائے گی،وہ زبان سے کچھ نہ بول سکے گا اوراس کے دوسرے اعضاء(ہاتھ،پاؤں وغیرہ) کو حکم ہوگا کہ تم بولو،پھر وہ اس کے اعمال کے ساری سرگزشت سنائیں گے”۔
(مسلم، كِتَاب الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ،حدیث نمبر:۵۲۷۱، شاملہ، موقع الإسلام)
ایک حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ:
“ایک شخص رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اورعرض کیا یا رسول اللہ میرے پاس کچھ غلام ہیں جو کبھی کبھی شرارتیں کرتے ہیں،کبھی مجھ سے جھوٹ بولتے ہیں کبھی خیانت کرتے ہیں اورمیں ان قصوروں پر کبھی ان پر خفا ہوتا ہوں،برابھلاکہتا ہوں اورکبھی مار بھی دیتا ہوں توقیامت میں اس کا کیا انجام ہوگا؟ آپ نے فرمایا:اللہ تعالی قیامت میں ٹھیک ٹھیک انصاف فرمائے گا اگر تمہاری سزاان کے قصوروں کے بقدر اوربالکل مناسب ہوگی تو نہ تمہیں کچھ ملے گا اور نہ کچھ دینا پڑے گا اوراگرتمہاری سزائیں ان کے قصوروں سے کم ہوں گی تو تمہارا فاضل حق تم کو دلوایا جائے گا اور اگر تمہاری سزاان کے قصوروں سے زیادہ ہوگی تو تم سے اس کا بدلہ تمہارے ان غلاموں کو دلایا جائے گا، حدیث میں ہے کہ یہ سن کر وہ پوچھنے والا شخص رونے اورچیخنے لگا اور اس نے عرض کیا:یارسول اللہ پھرتومیرے لیے یہی بہتر ہے کہ میں ان کو الگ کردوں،میں آپ کو گواہ کرتاہوں کہ میں نے ان سب کوآزاد کردیا”۔
(ترمذی، بَاب وَمِنْ سُورَةِ الْأَنْبِيَاءِ عَلَيْهِمْ السَّلَام،حدیث نمبر:۳۰۸۹، شاملہ، موقع الإسلام)
اسی حدیث میں یہ ہے کہ:
“حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو قرآن شریف کی یہ آیت بھی سنائی: ” وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـیْـًٔاo وَاِنْ کَانَ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَابِہَاo وَکَفٰى بِنَا حٰسِـبِیْنَ”۔ (الانبیاء:۴۷)
اس آیت کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
“ہم قیامت کے دن انصاف کے میزان لگائیں گے اور کسی کے ساتھ وہاں کوئی ناانصافی نہ ہوگی اوراگرکسی کا کوئی عمل یا حق رائی کے دانے کی برابر بھی ہوگا،توہم اس کو حاضرکریں گے اور ہم حساب لینے والے کافی ہیں”۔
اللہ تعالی ہمیں توفیق دے کہ مرنے کے بعد اورقیامت کے متعلق قرآن پاک نے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو باتیں ہم کو بتلائیں ہیں ہم ان سے غافل نہ
جن ہے کہ قیامت کا دن فیصلے کا دن ہوگا، پھر جو مؤمن ہوں گے اور دنیا میں جن کے اعمالت اوردوزخ
یہ بتلایا جاچکا ہے کہ قیامت کا دن فیصلے کا دن ہوگا، پھر جو مؤمن ہوں گے اور دنیا میں جن کے اعمال بھی بہت اچھے رہے ہوں گے اورکسی سزا اور عذاب کے مستحق نہ ہوں گے وہ تو قیامت کے عرصہ میں بھی عرش الہی کے سائے میں اور بہت آرام سے رہیں گے اور بہت جلدی جنت میں بھیج دئے جائیں گے اور جو ایسے ہوں گے کہ کچھ سزاپاکر بخشے جائیں گے وہ قیامت اورحشر کے دن کی کچھ تکلیفیں اٹھاکر یازیادہ سے زیادہ کچھ مدت تک دوزخ میں اپنے گناہوں کی سزا پاکر بخش دئے جائیں گے؛بہرحال جن میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا وہ آخرکارکبھی نہ کبھی جنت میں پہونچ ہی جائیں گےاور دوزخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے صرف وہی رہ جائیں گے جو دنیا سے کفر وشرک کی حالت میں گئے ہوں گے؛ الغرض جنت ایمان اورنیک عملی اوراللہ کی وفاداری کا بدلہ ہےاوردوزخ کفروشرک اوراللہ سے غداری اور اس کی نافرمانی کی سزاہے، قرآن وحدیث میں جنت کی نعمتوں کاتذکرہ بڑی تفصیل سے کیا گیا ہے،چندآیتیں اورحدیثیں ہم یہاں بھی ذکر کرتے ہیں:
“لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّہِمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا وَاَزْوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ وَّرِضْوَانٌ مِّنَ اللہِoوَاللہُ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ”۔
(آل عمران:۱۵)
پرہیزگاروں کے لیے ان کے رب کے ہاں وہ جنتیں(یعنی ایسے باغات)ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں،وہ ان ہی میں رہیں گے اورپاک ستھری بیبیاں ہیں اوراللہ کی رضا مندی ہے اور اللہ اپنے سب بندوں کوخوب دیکھنے والاہے(کسی کا حال اس سے چھپا نہیں ہے)۔
اورسورہ یٰس میں ارشاد ہے:
“اِنَّ اَصْحٰبَ الْجَنَّۃِ الْیَوْمَ فِیْ شُغُلٍ فٰکِــہُوْنَoہُمْ وَاَزْوَاجُہُمْ فِیْ ظِلٰلٍ عَلَی الْاَرَائِکِ مُتَّکِـُٔـوْنَo لَہُمْ فِیْہَا فَاکِہَۃٌ وَّلَہُمْ مَّا یَدَّعُوْنَoسَلٰمٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ”۔
(یٰس:۵۵۔۵۸)
اہل جنت اس دن اپنے مشغلوں میں خوش ہوں گے،وہ ان کی بیویاں سایہ میں مسہریوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے،ان کے لیے وہاں طرح طرح کے میوے ہوں گے، اورجوکچھ مانگیں گے ان کوملے گا رحمت وکرم والے پروردگار کی طرف سے ان کو سلام فرمایاجائے گا۔
اورسورۂ زخرف میں ارشاد ہے:
“وَفِیْہَا مَا تَشْتَہِیْہِ الْاَنْفُسُ وَتَلَذُّ الْاَعْیُنُoوَاَنْتُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ”۔
(الزخرف:۷۱)
اورجنت میں وہ سب کچھ ہے جس کو لوگوں کے جی چاہتے ہیں اورآنکھیں جس سے مزہ لیتی ہیں اور(اے میرے نیک بندو)تم ہمیشہ اسی جنت میں رہوگے۔
اورسورۂ محمد میں جنت کا حال اس طرح بیان کیاگیا ہے:
“مَثَلُ الْجَنَّۃِ الَّتِیْ وُعِدَالْمُتَّقُوْنَoفِیْہَآاَنْہٰرٌمِّنْ مَّاءٍ غَیْرِاٰسِنٍoوَاَنْہٰرٌمِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُہٗoوَاَنْہٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّۃٍ لِّلشّٰرِبِیْنo وَاَنْہٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى oوَلَہُمْ فِیْہَا مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ وَمَغْفِرَۃٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ”۔
(محمد:۱۵)
وہ جنت جس کا وعدہ پرہیزگاروں سے کیا گیا ہے اس کا حال یہ ہے کہ اس میں بہت سی نہریں ہیں پانی کی جس میں ذراتغیر نہیں ہوگا اور بہت سی نہریں ہیں دودھ کی جس کا ذائقہ ذرا بدلاہوانہ ہوگا اوربہت سی نہریں ہیں حلال اورپاک شراب کی جس میں بڑی لذت ہے پینے والوں کے لیے اور بہت سی نہریں ہیں صاف کئے ہوئے شہد کی اور ان کے واسطے اس جنت میں سب طرح کے پھل ہیں اوربخشش ہے ان کے پروردگار کی۔
اور سورۂ حجر میں جنت کی ایک صفت یہ بیان کی گئی ہے:
“لَا یَمَسُّہُمْ فِیْہَا نَصَبٌ”۔
(الحجر:۴۸)
اہل جنت کو کسی قسم کی کوئی تکلیف وہاں نہیں چھوسکے گی۔
یعنی جنت میں صرف آرام ہی آرام اورعیش ہی عیش ہوگا،کسی قسم کی کوئی تکلیف اوررنج کی کوئی بات وہاں نہ ہوگی،یہ توجنت اورجنتیوں کا مختصر حال ہوا،اب دوزخ اوردوزخیوں کا بھی کچھ حال قرآن مجید ہی کی زبان سے سن لیجئے۔
سورہ مؤمنون میں ارشاد ہے:
“وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُولٰئِکَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓااَنْفُسَہُمْ فِیْ جَہَنَّمَ خٰلِدُوْنَ”۔
(المؤمنون:۱۰۳)
اورجس کا پلہ ہلکا ہوگا، سویہ وہ لوگ ہونگے جنہوں نے(کفروشرک یا بدعملی اختیار کرکے) خود اپنا گھاٹاکیا تو یہ جہنم میں رہیں گے، ان کے چہروں کو آگ جھلستی ہوگی اور ان کے منہ اس میں بگڑے ہوئے ہوں گے۔
اورسورۂ کہف میں فرمایا گیا ہے:
“اِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ نَارًاoاَحَاطَ بِہِمْ سُرَادِقُہَاoوَاِنْ یَّسْتَغِیْثُوْا یُغَاثُوْا بِمَاءٍ کَالْمُہْلِ یَشْوِی الْوُجُوْہَ”۔
(الکہف:۲۹)
ہم نے ظالموں کے لیے دوزخ تیار کی ہے، اس کی قناتیں انہیں گھیرے ہوئے ہیں اور جب وہ پیاس کی فریاد کریں گے تو اس کے جواب میں ان کو پانی دیا جائے گا تیل کی تلچھٹ جیسا اور اتنا جلتا اورکھولتا ہوا کہ بھون ڈالے منھ کو۔
اورسورۂ الحج میں ارشاد ہے:
“فَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا قُطِّعَتْ لَہُمْ ثِیَابٌ مِّنْ نَّارٍoیُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوْسِہِمُ الْحَمِیْمُoیُصْہَرُ بِہٖ مَا فِیْ بُطُوْنِہِمْ وَالْجُلُوْدُoوَلَہُمْ مَّقَامِعُ مِنْ حَدِیْدٍoکُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْہَا مِنْ غَمٍّ اُعِیْدُوْا فِیْہَاo وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ”۔
(الحج:۱۹۔۲۲)
جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لیے آگ کے کپڑے کترے جاویں گے اور ان کے سرکے اوپر سے تیز گرم پانی چھوڑا جائے گا،اس سے ان کی کھالیں اورپیٹ کے اندر کی چیزیں بھی سب گل جاویں گی اور ان کے لیے لوہے کے گرزہوں گے وہاں کی تکلیف اور سختی کی وجہ سے وہ جب اس سے نکلنے کا ارادہ کریں گے تو پھر اسی میں ڈھکیل دئے جائیں گےاور کہاجائے گا کہ نہیں جلنے کا عذاب چکھتے رہو۔
اورسورۂ دخان میں ارشاد ہے:
“اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِoطَعَامُ الْاَثِیْمِoکَالْمُہْلِ یَغْلِیْ فِی الْبُطُوْنِo کَغَلْیِ الْحَمِیْمِo خُذُوْہُ فَاعْتِلُوْہُ اِلٰى سَوَاءِ الْجَحِیْمِoثُمَّ صُبُّوْا فَوْقَ رَاْسِہٖ مِنْ عَذَابِ الْحَمِیْمِ”۔
(الدخان:۴۳۔۴۸)
بیشک زقوم کادرخت بڑے پاپیوں(کافروں مشرکوں)کاکھاناہوگا،جواپنی بدصورتی اورگھنونے پن میں تیل کی تلچھٹ کی طرح ہوگا، اوروہ پیٹوں میں ایسا کھولے گا جیسے تیز گرم پانی کھولتا ہےاور فرشتوں کو حکم ہوگا کہ اس کو پکڑو،پھر گھسیٹتے ہوئے دوزخ کے بیچوں بیچ تک لے جاؤ؛ پھراس کے سرپر نہایت تکلیف دینے والا جلتاہوا پانی چھوڑو۔
اورسورۂ ابراہیم میں دوزخی آدمی کے متعلق فرمایاگیا ہے کہ:
“وَیُسْقٰى مِنْ مَّاءٍ صَدِیْدٍoیَّتَجَرَّعُہٗ وَلَا یَکَادُ یُسِیْغُہٗ وَیَاْتِیْہِ الْمَوْتُ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ وَّمَاہُوَبِمَیِّتٍo وَمِنْ وَّرَآئِہٖ عَذَابٌ غَلِیْظ”۔
(ابراہیم:۱۶،۱۷)
اس کو ایسا پانی پینے کو دیا جائے گا جو کہ پیپ لہو ہوگا جس کو وہ گھونٹ گھونٹ کر کے پئے گا اور گلے سے اس کو وہ آسانی سے اتار نہ سکے گا اور ہر طرف سے اس پر موت کی آمد ہوگی اور وہ مرے گا بھی نہیں اوراس کو سخت عذاب کا سامنا ہوگا۔
“اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْہِمْ نَارًاo کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّلْنٰھُمْ جُلُوْدًا غَیْرَھَا لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَ”۔
(النساء:۵۶)
جو لوگ ہماری آیتوں اورہمارے حکموں کے منکر ہیں ہم ان کو ضرور دوزخ کی آگ میں ڈالیں گے،جب ان کی کھالیں چل بھن جائیں گی اور پک جائیں گی تو ہم ان کی جگہ اور کھالیں بدل دیں گے تاکہ وہ عذاب کا مزہ پوری طرح چکھیں۔
قرآن مجید کی سیکڑوں آیتوں میں دوزخ کے دردناک عذاب کی اس سے بہت زیادہ تفصیلات بیان کی گئی ہیں، یہاں ہم انہی چند آیتوں پر بس کرتے ہیں؛ اب جنت اوردوزخ کے متعلق چند حدیثیں بھی سن لیجئے ،ایک حدیث میں ہے،رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
“میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے(جنت میں) وہ وہ چیزیں تیار کی ہیں جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اورکسی انسان کے دل میں ان کا خیال ہی گزرا ہے”۔
(بخاری،بَاب مَا جَاءَ فِي صِفَةِ الْجَنَّة،حدیث نمبر:۳۰۰۵)
بیشک! جنتیوں کو جو نفیس ولذیذ کھانے ملیں گے جو پھل عطافرمائے جائیں گے؛ اسی طرح پینے کی جو نہایت لطیف اورخوش گوار چیزیں ملیں گی اورپہننے کے لیے جو اعلی درجہ کے خوش نما لباس دئے جائیں گے اور جو عالیشان خوبصورت مکانات اورخوش منظر باغیچے عطاہوں گے اور جنت کی جو حسین وجمیل حوریں دی جائیں گے اور ان کے سوا بھی لذت اورراحت اورلطف ومسرت کے جو اور سامان عطا فرمائے جائیں گے جیسا کہ اس حدیث میں فرمایا گیا واقعہ یہی ہے کہ بس اللہ ہی ان کو جانتا ہے؛البتہ ہمارا اس سب پر ایمان ہے،ایک حدیث میں ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ:
“جب جنتی جنت میں پہونچ جائیں گے تو اللہ کی طرف سے ایک پکارنے والا پکارے گا کہ اب تم ہمیشہ تندرست رہو کوئی بیماری تمہارے پاس نہیں آئے گی،اب تم ہمیشہ زندہ رہو،تمہارے لیے اب موت نہیں،تم ہمیشہ جوان رہو، اب تم بوڑھے ہونے والے نہیں،اب تم ہمیشہ عیش و راحت میں رہو، کوئی رنج وغم اب تمہارے پاس آنے والا نہیں”۔
(مسلم،بَاب فِي دَوَامِ نَعِيمِ أَهْلِ الْجَنَّةِ،حدیث نمبر:۵۰۶۹، شاملہ، موقع الإسلام)
سب سے بڑی نعمت جو جنت میں پہونچنے کے بعد جنتیوں کو ملے گی وہ اللہ کا دیدار ہوگا، حدیث شریف میں ہے،رسول اللہﷺ نے بیان فرمایاکہ:
“جب جنتی لوگ جنت میں پہونچ جائیں گے تو اللہ تعالی ان سے فرمائیں گے،کیا تم چاہتے ہو کہ جو نعمتیں تم کو دی گئیں ان سے زائد کوئی اورچیز میں تمہیں عطاکروں؟ وہ عرض کریں گے خداوندا!آپ نے ہمارے چہرے روشن کئے ہم کو دوزخ سے نجات دی اورجنت عطا فرمائی(جس میں سب کچھ ہے اب ہم اورکیا مانگیں)حضورصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:پھر پردہ اُٹھادیا جائے گا اور اس وقت وہ اللہ تعالی کو بغیر پردے کے دیکھیں گے اور پھر جنت اور اس کی ساری نعمتیں جو اب تک ان کو مل چکی تھیں ان سب سے زیادہ پیاری نعمت ان کے لیےیہ دیدار الہٰی کی نعمت ہوگی”۔
(مسلم،بَاب إِثْبَاتِ رُؤْيَةِ الْمُؤْمِنِينَ فِي الْآخِرَةِ رَبَّهُمْ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى،حدیث نمبر:۲۶۶، شاملہ، موقع الإسلام)
اللہ تعالی ہم کو بھی یہ سب نعمتیں اپنے فضل وکرم سے نصیب فرمائے،ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے جنت کے عیش وراحت اوردوزخ کے دکھ اورعذاب کاذکر کرتے ہوئے فرمایا:
“قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا جو دنیا میں سب سے زیادہ عیش وآرام اورٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ رہا ہوگا لیکن اپنی بدبختی کی وجہ سے وہ دوزخ کا مستحق ہوگا، تو اس کو دوزخ کی آگ میں ایک غوطہ دے کر فورا نکال لیا جائے گا،پھر اس سے پوچھا جائے گا کہ کبھی تو عیش وآرام میں بھی رہا تھا؟وہ کہے گا:اے پروردگار!تیری قسم!میں نے کبھی کوئی آرام نہیں دیکھا اور ایک دوسرے آدمی کو لایا جائے گا جو دنیا میں سب سے زیادہ تکلیفوں میں رہا ہوگا مگر وہ جنت کا مستحق ہوگا، پھر اسی طرح اس کو بھی جنت کی ذراہوا کھلا کر فورا نکال لیاجائے گااورپوچھا جائے گاکہ تو کبھی کسی دکھ اورتکلیف کی حالت میں رہاتھا؟وہ عرض کرے گا:نہیں میرے پروردگار!تیری قسم!مجھے کبھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی اور میں نے کبھی کوئی دکھ نہیں دیکھا”۔
(مسلم،بَاب صَبْغِ أَنْعَمِ أَهْلِ الدُّنْيَا فِي النَّارِ وَصَبْغِ أَشَدِّهِمْ بُؤْسًا فِي الْجَنَّة،حدیث نمبر:۵۰۲۱، شاملہ، موقع الإسلام)
درحقیقت جنت میں اللہ تعالی نے ایسے ہی عیش وآرام کا انتظام فرمایا ہے کہ دنیا میں ساری عمر دکھوں اورتکلیفوں میں رہنے والا آدمی بھی ایک منٹ کے لیے جنت میں پہونچنے کے بعد اپنی عمر بھر کی تکلیفوں کو بالکل بھول جائے گااوردوزخ ایسا ہی عذاب کا گھر ہے کہ دنیا میں ساری عمر عیش وآرام سے رہنے والا آدمی بھی ایک منٹ دوزخ میں رہ کر بلکہ صرف اس کی گرم اوربدبودار لپٹ پاکر یہی محسوس کرے گا کہ اس نے کبھی عیش وآرام کا منھ نہیں دیکھا،دوزخ کے عذاب کی سختی کا اندازہ بس اسی ایک حدیث سے کیا جاسکتا ہے،حضورﷺ نے فرمایا:
“دوزخ میں سب سے کم عذاب جس شخص کو ہوگا وہ یہ ہوگا کہ اس کے پاؤں کی جوتیاں آگ کی ہوں گی،جن کے اثر سے اس کا دماغ اس طرح کھولے گا جس طرح چولھے پر رکھی ہانڈی پکاکرتی ہے”۔
(بخاری،بَاب صِفَةِ الْجَنَّةِ وَالنَّار،حدیث نمبر:۶۰۷۶، شاملہ، موقع الإسلام)
دوزخیوں کو کھانے پینے کے لیے جو کچھ دیا جائے گا اس کا کچھ ذکر ابھی ابھی قرآن شریف کی آیتوں میں گزر چکا ہے،اس سلسلہ میں دو حدیثیں بھی سن لیجئے،ایک حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“جہنمیوں کو جو بدبودارپیپ(غساق)پینی پڑےگی، اگر اس کا ایک ڈول بھر کے دنیا میں بہادیا جائے،تو ساری دنیا اس کی بدبو سے بھرجائے”۔
(ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِي صِفَةِ شَرَابِ أَهْلِ النَّارِ،حدیث نمبر:۲۵۰۹، شاملہ، موقع الإسلام)
ایک اورحدیث میں ہے کہ حضورﷺ نے اس زقوم کا ذکر کرتے ہوئے جو دوزخیوں کو کھانا ہوگا ارشاد فرمایا:
اگرزقوم کا ایک قطرہ اس دنیا میں ٹپک جائے تو ساری دنیا میں جو کھانے پینے کی چیزیں ہیں سب خراب ہوجائیں پھر سوچو کہ اس پر کیا گزرے گی جس کو یہی زقوم کھانا پڑے گا۔
(مصنف بن ابی شیبہ،حدیث نمبر:۳۵۲۸۱ ، شاملہ، موقع یعسوب)
اے اللہ! توہم کو اورسب ایمان والوں کو دوزخ کے ہر چھوٹے بڑے عذاب سے اپنی پناہ میں رکھ۔
بھائیو! برزخ اورقیامت اور دوزخ اورجنت کے متعلق اللہ تعالی کی کتاب قرآن پاک نے اور اس کے رسول حضرت محمدؐ نے جوکچھ ہم کو بتلایا ہے(جس میں سے کچھ یہاں ان دوسبقوں میں ہم نے ذکر کیا ہے) اس میں ذرہ برابر شبہ نہیں ہے،قسم اللہ پاک کی یہ سب بالکل اسی طرح ہیں اور مرنے کے بعد ہم ان سب چیزوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے، قرآن وحدیث میں قیامت اورجنت دوزخ کاذکر اتنی تفصیل سے اور سیکڑوں بار اسی لیے کیا گیا ہے کہ ہم دوزخ کے عذاب سے بچنے کی اورجنت حاصل کرنے کی کوشش سے غافل نہ ہوں۔
بھائیو! یہ دنیا چند روزہ ہے ایک نہ ایک دن ہم سب کو یقینا مرنا ہے اور قیامت یقینا آنے والی ہے اور ہم سب کو اپنے اعمال کاحساب دینے کے لیے اللہ کے سامنے یقینا کھڑا ہونا ہے اور پھر اس کے بعد ہمارا مستقل اوردائمی ٹھکانایا جنت میں ہوگا یا دوزخ میں۔
ابھی وقت ہے کہ پچھلے گناہوں سے توبہ کرکے اورآئندہ کے لیے اپنی زندگی کو درست کرکے دوزخ سے بچنے کی اورجنت حاصل کرنے کی فکر اورکوشش کرلیں؛ اگر خدانخواستہ زندگی یوں ہی غفلتوں میں گزرگئی،تو مرنے کے بعد حسرت اوردوزخ کے عذاب کے سوا کچھ حاصل نہ ہوسکے گا۔ “اَللّٰھُّمَّ اِنَّا نَسْأَلُکَ الْجَنَّۃَ وَمَا قَرَّبَ اِلَیْھَا مِنْ قَوْلٍ وَعَمَلٍ،وَنَعُوْذُبِکَ مِنَ النَّارِ وَمَاقَرَّبَ اِلَیْھَا مِنْ قَوْلٍ